دبئی کا ’برج خلیفہ‘ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہے جسے دیکھنے سیاح دور دور سے آتے ہیں اور اس عظیم الشان عمارت کی خوبصورتی کو دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں۔ اب اِسی ’برج خلیفہ‘ کو لے کر ایک جادوگر نے دلچسپ اعلان کر کے کچھ لوگوں کو حیران تو کچھ کو پریشان کر دیا ہے۔ امارات کی ریاست راس الخیمہ سے تعلق رکھنے والے جادوگر ڈاکٹر منتصر المنصور نے یہ حیرت انگیز دعویٰ کیا ہے کہ اگر انہیں کوئی اسپانسر مل جائے تو کچھ سیکنڈز کے لئے وہ ’برج الخلیفہ‘ کو غائب کر دیں گے۔ المنصور نے پْریقین انداز میں اپنے دعوے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ برج خلیفہ کو غائب کر سکتے ہیں۔ اْن کے الفاظ میں: ’میں تین سکینڈز کے لئے برج خلیفہ کو آنکھوں سے اوجھل کرسکتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ مجھے کوئی اسپانسر کردے۔ میں یہ جادو دسمبر میں کرنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی اسپانسر تیار ہوا تو پھر سب ہی میرا یہ جادو دیکھیں گے‘۔ ‘ ڈاکٹر منتصر وہ پہلے عرب شہری ہیں جنھوں نے جادو کی دنیا کا آسکر ایوارڈ سمجھا جانے والا ’مرلن ایوارڈ‘ دو مرتبہ جیتا۔ یہ ایوارڈ ہرسال امریکا میں قائم بین الاقوامی جادو گر سوسائٹی کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر المنصور کا کہنا ہے کہ وہ 26سالوں کے دوران 70ہزار میجک شوز اسٹیج پر پیش کر چکے ہیں۔- تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہیرو نائمس بوسک کا نام جادوئی کرتب کے حوالے سے آج بھی زندہ ہے۔ اس کے بعد بہت نامور میجک ماسٹر اس میدان میں آئے ، جین ہوجین ، روبرٹ ہودین پہلا جدید جادو گر تھا، جدید جادوئی کرتبوں کا آغاز اسی نے کیا اور 1840ء میں پیرس میں میجک تھیٹر بنا کر اس فن کو عروج بخشا جس میں اس نے مکینکل انجیئرز کی مدد سے کافی جدید آلات کا استعمال بھی کیا۔ اس کے بعد برطانوی میجک ماسٹر جے این میکلیں نے اس فن کے فروغ میں اہم کردار اداکیا۔ 1873ء میں لندن میں اس کے لئے باقاعدہ ہال تعمیر کیا گیا۔ اس ہال میں تمام جادوئی آلات فراہم کئے گئے۔ انیسویں صدی کے جادو کے حوالے سے ہیری ہدونی کا نام قابل ذکر ہے جس کا سٹیج کا نام روبرٹ ہدونی تھا، جس نے ایک طویل فہرست نئے نئے کرتبوں کی نیویارک اور پوری دنیا میں متعارف کروائی ، یہ فطری طور پر کچھ ایسی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ اسے ا سٹیج کرتبوں کے میدان میں خاص پذیرائی حاصل ہوئی۔ کیو نکہ اس کا دماغ ہر وقت نئے اور جدید کرتبوں کی تیاری میں مصروف رہتا تھا۔ اس نے جادو کے بہت سے نئے اصول متعارف کروائے۔ مثال کے طور پر انیسویں صدی میں استعمال کیاجانے والا ، پیپر گھوسٹ ، جو بہت مشہور ہوا اور جدید پر فارمنس میں منظری دھوکہ کے ذریعے تاج محل جیسے بڑے عجوبے کو غائب کرتا تھا۔ جادو کے کمالات دکھانے میں سات قسم کے فنون کو زیادہ پذیرائی حاصل ہے اور کم وبیش پوری دنیا میں یہی استعمال کئے جاتے ہیں۔ پہلا کرتب پروڈکشن کہلاتا ہے۔ اس میں ایک بے جان چیز مثلاً ہیٹ وغیرہ میں جادو کے ذریعے خرگوش یا کسی اور جانور کو زندہ کر کے دکھا یا جاتاہے۔ دوسرا کرتب جو بہت مشہور ہے وہ میجک ماسٹر کاآن کی آن میں کسی سکے کو اپنی انگلیوں میں غائب کرنا ہے یا پھر کسی پرندے کو پنجرے میں رکھ کر تالی بجا کر اسے غائب کرنا ہے۔ یا پھر مٹھی میں ایک رومال کو بند کرنا اور ہاتھ کو ملنے پر رومال کا غائب ہو جانا ، تیسرا کرتب جو بہت مشہور ہے وہ ایک جادو گر کا حاضرین میں سے کسی ایک کو بلا کر اس کے ہاتھ میں ایک کارڈ دینا ہے۔ پھر اس کے ہاتھ سے کارڈ لے کر اسے دو کرنا اور اس طرح تین، چار سے زائد کا رڈ بنادینا ہے۔ یہ سب کچھ چونکہ تماش بینوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوتا ہے اسلئے ایسے کرتبوں پر ان کا یقین کرنا لازمی امر ہے لیکن یہ تمام کام ہوتے ہاتھ کی صفائی کی بدولت ہی ہیں۔ کرتب کی چوتھی قسم ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو جادو کے ذریعے جوڑنا ہے۔ ایک رسی کو دوٹکڑوں میں تقسیم کرنا ، اسے ایک گرہ کے ذریعے جوڑنا اور پھر جادو کے ذریعے اس گرہ کو غائب کر دینا ہے۔ بانچویں قسم میں جادو کے ذریعے سے اشیاء کی اشکال تبدیل کرنا شامل ہے۔چھٹی قسم میں میجک ماسٹر کا اپنے اسٹنٹ کو ہوا میں معلق کرنا ہے یہ اگر چہ ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن جدید آلات اور ہاتھ کی صفائی سے یہ کرتب بے حد مقبول ہے۔ اس کے علاوہ بھی جادو کی بیشتر اقسام زمانہ قدیم سے موجود ہیں اور یہ کرتب دکھانے والے شاہی درباروں سے لے کر آج کے موجودہ سٹیج تک اپنے فن کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن اس میں ہاتھ کی صفائی سے زیادہ کمال اپنے فن کو صیغہ راز میں رکھنا ہے اور جنہیں یہ جادوگر شاگرد بناتے ہیں۔ انہیں بھی اس فن کو راز میں رکھنے کی خاص ہدایت کی جاتی ہے۔ وگرنہ ان کی انفرادیت ختم ہوجائے۔ دور حاضر کے جدید میجیشن ’’ڈیوڈ کو پر فیلڈ’’اپنے جادو کے لحاظ سے منفرد اہمیت کے حامل اس لیے ہیں کہ وہ کوئی جادوئی کرتب کر کے نہیں دکھاتے بلکہ کشش ثقل کے باوجود بغیر کسی سہارے کے خود کو ہوا میں معلق رکھ سکتے ہیں۔ اسی لئے انہیں دنیا کے ’’فلائنگ مین ’’کا نام دیا گیا ہے۔ ڈیوڈ کوپر فیلڈ کا تعلق ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے ہے اور ان کا دعوی ہے کہ وہ فضا میں آزادا نہ سفر کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ چند لمحوں میں طویل دیوار چین کا راستہ عبور کر سکتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی سہارے کے۔ کسی بھی ذی عقل کے لئے ایسے انسان کا یقین کرنا جو ہوا میں بغیر کسی سہارے کے اڑ سکے اتنا آسان نہیں۔ ہو امیں اڑ نے والا یہ شخص ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا باشندہ ہے اور ڈیوڈ کوپر فیلڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ستمبر 1956ء میں نیوجرسی میں پیدا ہوا۔ شروع ہی سے اسے جادو سے متعلق پرفارمنگ آرٹ سے دلچسپی تھی اور12سال کی عمر میں ہی وہ جادو کے کرتب دکھاتا۔ اس کے عجیب و غریب کرتبوں کو دیکھتے ہوئے امریکن میجیشن سوسائٹی نے میجک ماسٹر کے طور پر ڈیوڈ کو تسلیم کر لیا۔ اس تنظیم میں باقاعدہ اس کانام رجسٹر کر لیا گیا۔ اپنے فن میں ماہر ہونے کی وجہ سے ڈیوڈ روز افزوں ترقی کرتا گیااور سولہ سال کی عمر میں نیویارک میں 1980ء میں بننے والی ہارر فلم ’’ٹیررٹرین ’’ میں بطور جادو گر کردار کیا۔ ایک ماہر کے مطابق ڈیوڈ کے پاس مافوق الفطرت طاقت ہے۔ ڈیوڈ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں خود کو غائب کر لیتا ہے لیکن ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوالیہ نشان موجود ہے کہ ڈیوڈ یہ سب کچھ کس طرح کرتا ہے۔ ڈیوڈ کی صلاحیت کی بدولت 1982ء میں معذور افراد کی بحالی کے لئے اس کی طاقت کو بروے کار لانے کی کوشش کی گئی۔ اس پروگرام کے تحت امریکن آکو پیشنل تھراپی ایسوسی ایشن نے ایک ہزار ہاسپٹلز کے نیٹ ورک میں معذور افراد کی مدد کے لئے ڈیوڈ کے بحالی معذوراں پروگرام کا آغاز کیا۔ ڈیوڈ نے ’’میجک انڈر گراونڈ ’’کے نام سے اس کام کا آغاز کیا۔ یہ بنیادی طور پر ہائی ٹیک وڈیو سسٹم تھا جس کے لئے اس میجک پرفارمنگ میں شریک ہزاروں افراد کے لئے خاص جگہیں مخصوص کی گئیں۔لیکن معذور افرادکے سلسلے میں ڈیوڈ کی خاص صلاحیت جو اسے دوسرے جادو گروں سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ سٹیج کے علاوہ حقیقی زندگی میں اپنی باکمال صلاحیتوں کا مظاہرہ ہے ڈیوڈ کے مطابق ایک بار اسے کچھ ڈاکووں نے لوٹنے کی کوشش کی۔ اس کے دواسسٹنٹ اور ڈیوڈ سے رقم چھننے کی کوشش کی گئی اور انہیں گن پوائنٹ پر ہنیڈز اپ کیا گیا تو اس کے اسسٹنٹس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کریں۔ اس نے دونوں اسسٹنٹس کا ہاتھ پکڑااور آن کی آن میں ہوا میں غائب ہو گیا۔ اس طرح اس کا پرس ، سیل فون اور پاسپورٹ سلامت رہے۔ ڈیوڈ کوپر فیلڈ کے پاس اس آرٹ کی مکمل تاریخ موجود ہے۔ اس لئے اسے حال اور مستقبل کا مایہ ناز جادو گر مانا جاتا ہے اڑنے اور غائب ہونے کی صلاحیت کی وجہ سے اس وقت ڈیوڈ پوری دنیا میں اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس نے یہ فن طویل عرصے کی محنت اور ریاضت کے بعد حاصل کیا ہے۔ اس کے پاس بہت سے ایسے فنون ہیں جن کی مدد سے وہ نئے جادوئی کرتب دریافت کر سکتا یے لیکن وہ اپنے ان تمام کمالات میں کسی کوشیئر کرنا نہیں چاہتا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ انسان کی فطری جبلت ہے۔ اس پوری دنیا میں اس کے فن کو سراہنے والے موجود رہیں جادو گری ایک قدیمی فن بھی ہے اور علم بھی۔ موجودہ دور کے جادو گر بنیادی طور پر ہاتھ اور آنکھ کی صفائی کے ماہر ہیں۔ جادو کا علم اب تقریباً کتابی دنیا تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جادوئی کمالات میں بھارت ہمیشہ بہت آگے رہا ہے۔ اس کے سادھو اور جوگی اپنا چمتکار دکھاتے رہتے ہیں۔ لیکن اب یہ فن کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ پرکاش ماون کروے بظاہر کوئی جادوگر نہیں لگتا۔ وہ ممبئی کے ایک ہسپتال میں انستھیزیا کے ماہر ڈاکٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔ پھر بھی وہ ڈیوٹی کے دوران وقفے میں اپنے شوق کی تسکین کے لیے کچھ وقت نکال ہی لیتا ہے۔جب پرکاش چند سکوں یا تاش کے پتوں کے ساتھ اپنا جادو دکھاتا ہے تو اس کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹر، مریض حتیٰ کہ میڈیکل کے طلبہ و طالبات اور ہسپتال میں موجود چھوٹے بچے سبھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ پرکاش کی عمر 58 برس ہے اور وہ مسکراتا ہوا کہتا ہے کہ ہسپتال میں نرسوں کی شفٹیں بدلتی رہتی ہیں، لہٰذا مجھے ہر وقت شائقین کا کوئی نہ کوئی ایسا گروپ مل ہی جاتا ہے، جسے میں حیران کر دوں، میرے شوق کی تکمیل بھی ہو جائے اور ساتھ ہی دیکھنے والوں کا ذہنی دباؤ بھی کم ہو جائے۔لیکن بھارت میں، جو بڑی تیزی سے بدل رہا ہے، جادو اور جادوگر بھی بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اس لیے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں مڈل کلاس بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور لوگوں کی تفریح کے معیارات کو بھی تغیر کا سامنا ہے۔ پرکاش ماون کروے کا کہنا ہے کہ اب لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اب ایک عام بھارتی جادوگر کو بھی مختلف طرح کے حالات کا سامنا ہے۔ پرکاش کا کہنا ہے: ’’آج دنیا میں جتنا بھی جادو کیا جاتا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ بھارت ہی نے دیا ہے۔ بھارت میں جادو کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ اس کا ذکر ہندو مت کی قدیم دیومالائی تاریخ میں بھی ملتا ہے۔‘‘ ایک اور جادوئی کمالات دکھانے والے مندر پاٹل ہیں۔ بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر ’ہاؤس آف میجک‘ چلانے والے مندر پاٹل کا کہنا ہے کہ بھارت میں روایتی جادوگری، جس میں ہاتھ کی صفائی سے تاش کا پتہ غائب کیا جا تا تھا ۔اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن پھر بھی سڑکوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے ایسے بہت سے فنکار اس معاشرے میں آج بھی پائے جاتے ہیں، جو اپنا معاش اسی پیشے سے کماتے ہیں اور جو اس فن کو کسی نہ کسی طرح زندہ رکھے ہوئے ہیں۔بھارت میں پیشہ ور جادوگروں کی ایک ایسی قومی تنظیم بھی قائم ہے، جس کی بنیاد 1932 میں رکھی گئی تھی، اور جو آج اس شعبے کی قدیم ترین ملکی تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ اس تنظیم کا نام Society of Indian Magicians ہے اور مندر پاٹل اس سوسائٹی کے ایک سابقہ صدر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں پیشہ ور جادوگری کی تربیت دینے والے ایسے کئی مراکز بھی قائم ہو چکے ہیں، جو اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مندر پاٹل کے بقول، بھارت میں یہ فن زوال پذیر تو ہے مگر جب تک عام لوگ جادوگروں کی جادوگری پر حیران ہوتے رہیں گے، جو کہ ہر معاشرے میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ ہوتا رہے گا، تب تک ایک فن کے طور پر جادوگری بھی باقی رہے گی اور جادو گر بھی۔ کیرالہ کے جادوگرگوپی ناتھ متھوکرکو آرٹ کوان کی غیرمعمولی خدمات کے مدنظرانٹرنیشنل مرلن ایوارڈ دیا گیا ہے۔ وہ پی سی سرکارکے بعد یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے وہ دوسرے ہندوستانی بن گئے ہیں۔ جادوگری کی دنیامیں آسکرایوارڈ کی حیثیت رکھنے والے اس ایوارڈ کو امریکہ کی جادوگروں کی انٹرنیشنل سوسائٹی کی جانب سے ان جادوگروں کو دیاجاتارہاہے جو قومی اوربین الاقوامی سطح پر کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔روم میں سپر میجک کے نام سے ہر سال جادو گری کا عظیم میلہ منعقد ہتا ہے۔ جادو کے سب سے زیادہ سراہے جانے والے اس بین الاقوامی میلے ایک منفرد تھیٹر ایونٹ ہے۔ جس میں خوبصورتی کا جشن مناتے، شاعری کے ساتھ رہنے کے جادو کا تجربہ کرنے کا موقع مہارت جادو اور تحقیق، شامل ہے۔ اس جشن کو منانے کے لئے ، دنیا میں سب سے زیادہ مشہور فنکاروں کی ایک نئی کاسٹ کا انتخاب کیا جاتا ہے، آرتھر ٹریس ایک جدید امریکی آپریٹر ہیں۔ جنہوں نے 2006 میں عالمی جادو ایوارڈ جادو آئی ایم ایف کی عالمی چیمپئن شپ جیتی تھی۔اوٹو Wessely ایک آسٹریا جادوگر، اور سابق عالمی چیمپئن ہے، وہ ساری دنیا میں لاس ویگاس میں سب سے بڑا شو کرتے ہیں۔ انھوں نے پیرس میں بھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دنیا میں انھیں سب سے بڑا بصری کامیڈین تصور کیا جاتا ہے۔ قدیم یورپ میں ایک بار خوف و ہراس کی ایک وبا، جادوگری کی وجہ سے چلی تھی اور پوری تین صدیوں تک یورپی زندگی، اس عجیب و غریب اور دردناک خوف کے غلبے کے دوران بدحواسیوں کا شکار رہی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یوں تو دنیا بھر میں کسی نہ کسی حد تک جادوٹونے پر یقین کیا جاتا ہے مگر وحشی اقوم کے سروں پر بھی اس طرح کا بے پناہ جنون کم ہی دیکھنے میں آیا تھا، حالاں کہ تیرھویں صدی کے آخر تک یورپ میں اس طرح کی کوئی بات پائی نہیں جاتی تھی۔ اس سلسلے میں کلیسا (جو ایک ادارے کے طور پر آسیبیات کی حدتک خاصا اہم ہے )، کا رویہ خاصا بے اعتقادی کا اور مقابلتاً رواداری کا تھا۔ مثال کے طور پر، اس وقت کے پاپائے روم نے “ہولی آفس” کو، نام نہاد چڑیلوں کو سزادینے کے مسئلے کو اپنے دائرہ اختیار میں لینے سے روک دیا تھا۔ یہ تبدیلی تو آنے والی صدی میں آئی اور پندرھویں صدی کی ابتدا میں، ایک پاپائی فرمان کے بعد تو چڑیلوں کی حرکتوں پر مبنی دہشت ناک کہانیاں معاشرے کے ہر طبقے میں سنی جانے لگیں۔ پندرھویں صدی کے آخر میں کولون میں شائع ہونے والی ایک مشہور کتاب Malleus Maleficarum میں جادوگری کے تمام تر نظریے کی تدوین اور تفصیل پیش کی گئی اور اس طرح اس المیے کے لیے اسٹیج مہیا کر دیا گیا جسے کم وبیش ایک ہی صورت میں تمام عیسائی ممالک میں پیش کیا جاتا تھا۔ اس تمام تر نظریے کی تشکیل دینیاتی اور قانونی ماہرین کے دماغوں میں ہوتی اور ہدف بننے والیوں کو اس وقت تک ایذا دی جاتی جب تک وہ مصنفین کے خیالات کے مطابق “اعترافات” نہ کر لیتیں۔ حالاں کہ ایسے روشن خیال لوگ موجود تھے، جو کسی نہ کسی حد تک یہ جانتے تھے کہ یہ عجوبہ کیوں پیش آیا ہے مگر بہرحال اٹھارویں صدی اور اس کے بعد تک جادوگری کو بعض اوقات مخدوش مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ اٹھارویں صدی میں جو ں ہی جادوگری کا غلبہ ختم ہوا، ایک اور غلبے یعنی عریانی کے غلبے نے اس کی جگہ لے لی جس کا منبع حیرت انگیز طور پر وہی تھا، یعنی ٹیڑھے میڑھے مذہبی خیالات۔ لگتا تھا کہ خوف کی اس ماقبل انسانی پیاس کو اپنے لیے کچھ نہ کچھ چاہیے تھا اور اس لیے جب جادوگری اپنی دہشت ناکیاں کھو چکی تو عریانی کا یہ نیا سیاہ کارانہ ظلم اس کے لیے اسی طرح کام آیا۔ اس معاملے میں ، تیرھویں صدی کے چڑیلوں کے متلاشی، یقینا آج کی عریانی کے متلاشیوں کے نصف ثانی ہیں۔ چڑیل کے گرد خیرہ کن ہالہ واقعتا نقصان دہ اثرات کا باعث ہوا کرتا تھا، بالکل اسی طرح جس طرح اب ہم عریانی کے گرد کشش کا ایک ایسا ہالہ تیار کرتے ہیں جس سے وہ تاثیر ملتی ہے جو بصورت دیگر اس کے پاس نہیں ہوتی۔ رچرڈ وائز مین نے فریب کے موضوع پر نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ہے? وہ ماضی میں جادوگری کیا کرتے تھے اور اپنے کمالات سے دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کردیتیتھے۔وہ کہتے ہیں کہ روزمرہ زندگی میں بہت ہی معمولی تبدیلیوں سے بڑے پیمانے پر سکون اور خوشی حاصل کی جاسکتی ہے۔انہوں نے اپنی کتاب میں انسانی نفسیات کے موضوع پرسائنسی جریدوں میں شائع ہونے والے کئی مطالعاتی جائزوں کے نتائج کو بنیادبنا کر خوشگواراور کامیاب زندگی گذارنے کے چند سادہ اور آسان اصول تجویز کیے ہیں۔انہوں نے اپنی کتاب میں ، کام، تعلقات، توجہ حاصل کرنے، فیصلہ کرنے اور ذہنی دباؤجیسے موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ہیری پوٹر کی مقبولیت بھی جادو ہی کی مرہون منت ہے۔ ہیری پوٹر اسٹار ڈینئل ریڈ کلف کے من میں اب یہ نئی خواہش جاگی ہے کہ وہ جمیز بانڈ سیریز کی مووی میں ہیرو نہیں ولن بنیں ۔ڈنیل ریڈکلف نے ہیری پوٹر سیریز میں خوب ہنگامہ مچایا کبھی جادوگری دکھا کر تو کبھی کچھ اور کمال دکھا کر،بچوں کے تو وہ من پسند اداکار ہیں۔اب جبکہ وہ عمر کی تیئس بہاریں دیکھ چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے اوپر سے ہیری پوٹر کی چھاپ مٹا سکیں۔ جادو یا واقعات کے غیرفطری طور پر ظہور پذیر میں لانے کافن۔ یہ علم ہر زمانے میں ہر قوم کے افراد کے عقیدے میں داخل رہا۔ اور مختلف اشخاص ہر جگہ اس کا دعوی کرتے چلے آئے ہیں۔ قدیم مصر کے پجاری اسی دعوے پر اپنی عبادت اور مذہب کی بنیاد رکھتے تھے۔ چنانچہ قربانیاں جادو ہی کی بنیاد پر دی جاتی تھیں۔ قدیم مصری ، بابل ، ویدک اور دیگر روایتوں میں دیوتاؤں کی طاقت کا ذریعہ بھی جادو ہی کو خیال کیا جاتا تھا۔ یورپ میں باوجود عیسائیت کی اشاعت کے جادو کا رواج جاری رہا۔ افریقہ میں اب تک ایسے ڈاکٹر موجود ہیں جو جادو کے ذریعے علاج کرتے ہیں۔سیاہ علم یا کالا جادو جنوں ، دیوتاؤں اور بدروحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور علم سفید یعنی سفید جادو نیک روحوں اور فرشتوں کے ساتھ ملاتا ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی جادو قدرت کے واقعات میں تصرف کے قابل بناتا ہے۔ رمل ، جفر ، جوتش ، اور نجوم بھی اسی کی شاخیں ہیں۔ جو توہم پرستی پر مبنی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی جادو کئی شکلوں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ مثلا تعویز ، گنڈے ، جن اور بھوت کا چمٹنا اور اتارنا وغیرہ۔آج کے ترقی یافتہ دور میں ان سب چیزوں کو توہم پرستی کے سوا کچھ نہیں کہاجاتا۔ برطانیہ کے جادوگر ‘‘ڈائنمو ’’ جو دنیا بھر میں اپنے مختلف نوعیت کے کرتب دکھانے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ انہوں نے ایک حیرت انگیز کرتب لندن کی سڑکوں پر دکھایا وہ ایک ڈبل ڈیکر کے باہر ہوا میں اڑتے ہوئے ملی بینک سے پارلیمنٹ اسکوائر کے راستے ویسٹ منسٹر برج تک گئے۔ انکے اس حیران کن کرتب کو سڑکوں پر درجنوں لوگوں نے دیکھا تھا۔ شائد یہ بھی نظر بندی ہی کا کوئی کمال تھا۔ ہارر اور تھرلر فلمیں ہمیشہ سے بولی وڈ میں بنائی جاتی رہی ہیں مگر ماضی میں اس نوع کی فلمیں ثانوی اہمیت کی حامل سمجھتی جاتی تھیں۔عام طور پر ان فلموں میں کم معروف اداکار کام کرتے تھے اور ان کا بجٹ بھی محدود ہوتا تھا۔ ایسی ڈراؤنی اور مافوق الفطرت قوتوں کے موضوعات پر بنائی گئی فلموں کی تعداد بہت کم تھی جن کی کاسٹ میں صف اول کے اداکار شامل ہوں۔ بہرکیف ڈراؤنی اور جادوئی فلمیں بھارت میں پسند کی جاتی رہی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہندو معاشرے میں جادو ٹونے کا چلن عام ہے۔’’ ایک تھی ڈائن‘‘ اس سلسلے کی نئی فلم ہے۔سیف علی خان اور کنال کھیمو کی فلم ’’ گو، گوا، گون‘‘ بھی ایک ایسی ہی فلم ہے۔ جس کی کہانی ان مْردوں کے گرد گھومتی ہے جو کسی ماورائی قوت کے زیراثر زندہ ہوجاتے ہیں۔ انگریزی میں انھیں zombie کہا جاتا ہے۔ مغرب میں اس موضوع پر ان گنت فلمیں بنائی جاچکی ہیں مگر ہندی سنیما کے لیے یہ موضوع ابھی نیا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں اس کے خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ لوگ فلموں کی کہانیوں پر یقین کر لیتے ہیں اور اس سے عورتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ حالیہ عرصے میں ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں ایسے بہت سے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں دیہاتیوں نے کسی عورت کو جادوگرنی قرار دے کر طرح طرح سے اذیتیں پہنچا مار ڈالا، یا اس کا گھرجلا کر اسے گاؤں بدر کردیا۔ اس ضمن میں مختلف اداروں کی جانب سے ریسرچ بھی کی گئی ہیں، جن کے نتائج میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ جادوگرنیوں سے متعلق فلمیں اور ڈرامے خواتین کے خلاف تشدد اور دیہاتیوں کے ہاتھوں ان کی ہلاکت کے واقعات میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔ اسلام نے جادو ٹونے کو حرام قرار دیا ہے۔بچوں کو دل بہلانے کی حد تک ان کمالات کی پذیرائی کی جاسکتی ہے۔ لیکن عملیات کے ذریعہ جادو ٹونا اﷲ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف اور اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔