لاہور (ویب ڈیسک) موجودہ سیاسی حالات پر اپنے ایک تازہ ترین تبصرے میں نامور صحافی جاوید چوہدری لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں سمجھتا ہوں پنجاب میں جب تک عثمان بزدار پلس موجود ہے‘ لوگ اس وقت تک میاں شہباز شریف کو نہیں بھول سکیں گے‘ یہ اس وقت تک پچھلے دس سالوں کو یاد کرتے رہیں گےصوبے میں جب بھی کوئی حادثہ ہو گا‘ جب بھی کوئی بحران پیدا ہو گا‘ جب بھی سفارش پر کسی کا تقرر یا تبادلہ ہو گا‘ حکومت کو جب بھی کسی محکمے کے لیے کوئی سربراہ نہیں ملے گا اور لوگ جب بھی کسی کو سی ایم یا وزیراعلیٰ کہیں گے تو انھیں بے اختیار میاں شہباز شریف یاد آ جائے گا۔ میں پچھلے دس بارہ برسوں سے اپنے ان خیالات کی وجہ سے گالیاں کھا رہا ہوں‘ پاکستان تحریک انصاف کے جذباتی نوجوان مجھے بکاؤ اور شریف خاندان کا ملازم تک کہتے ہیں‘ یہ لوگ جب تک جی چاہے یہ کہتے رہیں مجھے فرق پڑا اور نہ پڑے گا تاہم حقیقت وہی رہے گی میں جس کا اعلان پندرہ برسوں سے کر رہا ہوں اور شاید آیندہ بھی کرتا رہوں گا‘ مجھے یاد ہے میں 2014 سے 2019 تک اکیلا ہوتا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے عمران خان اور عثمان بزدار جیسے ’’فرشتے‘‘ اتارے اور آج حسن نثار اور ہارون الرشید جیسے کٹر عمرانیے بھی اپنی کمر پر ہاتھ لگا لگا کر چوٹیں گن رہے ہیں۔ یہ بھی وہی کہہ رہے ہیں جو میں کہتا تھا اور ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو میرے ساتھ ہوتاتھا‘ مجھے خطرہ ہے یہ حکومت اگر مزید چھ ماہ چل گئی تو پورا پاکستان حسن نثار بن جائے گا‘ یہ بھی مان لے گا یہ نادانی میں اپنی جان پر ظلم عظیم کر بیٹھے ہیں‘ یہ خود کنوئیں میں آ گرے ہیں‘ آپ صرف تین ماہ انتظار کر لیجیے‘ آپ کو آج کے دن شان دار ترین محسوس ہوں گے اور آپ ان لوگوں سے درخواست کر یں گے آپ ہمیں 2018میں نہ لے کر جائیں آپ ہمیں بس اکتوبر 2019 میں واپس لے جائیں‘ وہ بھی غنیمت تھا‘عثمان بزدار جو کارنامے پنجاب میں کر رہے ہیں عمران خان وہ ذمے داری اسلام آباد میں نبھا رہے ہیں۔ یہ بھی عوام کو روز نواز شریف یاد دلا دیتے ہیں‘ آپ پچھلے دو ماہ کے دوران اسلام آباد میں کرائم کی رپورٹیں نکال کر دیکھ لیں‘ پوش علاقوں میں ڈاکے شروع ہو چکے ہیں‘ لوگوں کو سر راہ لوٹ لیا جاتا ہے‘ ایمان دار اور مخلص حکومت 13 ماہ میں ایئر پورٹ کو میٹرو کے ساتھ نہیں جوڑ سکی‘ نواز شریف یہ کام جہاں چھوڑ کر گیا تھا یہ اس سے بھی دس پندرہ کلو میٹر پیچھے جا چکا ہے‘ سی پیک بھی کفن میں لپٹ چکا ہے بس اس کی تدفین باقی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھاگے مدت ہو چکی ہے بس اس کے پاؤں کے نشان باقی ہیں اور لوکل بزنس مین کیا سوچ رہا ہے یہ ملک کے چوٹی کے بزنس مینوں نے دو اکتوبرکو آرمی چیف کو بتا دیا‘ بزنس مینوں کی آرمی چیف سے ملاقات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے بزنس مین حکومت پر اعتبار کے لیے تیار نہیں ہیں‘ یہ بھی اب فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں۔