لاہور (ویب ڈیسک) بات تو کرنا تھی آزادی مارچ، دھرنے کی، مگر پھر سوچا، مولانا کے لمبے چکر، 27کو تو اسلام آباد آنا، ابھی اسی میں 20دن پڑے ہوئے، اگر اسلام آباد آگئے تو نجانے کب تک بیٹھنا، لہٰذا اعلیٰ حضرت کے بابرکت منصوبے پر بات کرنے کیلئے بہت وقت،البتہ رنگین پنجابی فلم ’کچی ٹاکی‘ کےنامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چند ٹریلرز ایسے، نہ دکھائے، پرانے ہو جائیں گے، لہٰذا حاضرِ خدمت ٹوٹے نما چند ٹریلرز، سنا جا رہا، شہباز شریف کا زخمی دل سیاست سے بھر گیا، ریٹائر ہونا چاہ رہے، دل زخمی کیوں، بس یہی کہنا،ان دنوں نواز شریف، مریم، خواجہ آصف، احسن اقبال چند اور کا ذکر کرتے وقت ان کی آواز بھرا جائے، سنا جا رہا، اڈیالہ جیل جہاں زرداری صاحب، فریال تالپور، اومنی گروپ کے لوگ،وہاں مبینہ طور پر کیا کیا سہولتیں بیچی جا رہیں، کیا کچھ خریدا جا رہا، بندہ سن کر پریشان ہو جائے، زرداری صاحب تو ویسے بھی جیل افسران، اہلکاروں کے پسندیدہ، کہانیاں مشہور، جیل میں ہوں، مسلسل نوازیں، رہا ہو جائیں، یاد رکھیں،البتہ شریفوں سے لوگ راہ و رسم صرف اس خوف سے رکھیں، جب ان کی حکومت آئے گی، تب سزاوار نہ ٹھہریں، سنا جا رہا، دن میں 2مرتبہ پاؤں کی مالش کروانے والے نواز شریف سے پنجاب بیورو کریسی کے چند افسر مل کر کہہ چکے ’’ہم مجبور، جو کچھ کر رہے حکومت کے دباؤ پر، ورنہ ہماری وفاداریاں آپ کے ساتھ‘‘، سنا جا رہا، دو افسروں کے ’حسنِ اخلاق‘ سے متاثر ہو کر نواز شریف انہیں اپنی آئندہ حکومت میں عہدے دینے کے وعدے کر چکے، سنا جا رہا،میاں صاحب جیل میں صبح اٹھنے سے رات سونے تک جو کچھ کھا، پی رہے وہ اس کے ملک کے 95فیصد آزاد لوگوں کو نصیب نہیں، تازہ بریڈ، انڈے، جوس، سلاد، فروٹ، چائے پکوڑے، روزانہ چکن، مٹن اور بھانت بھانت کیفرمائشیں الگ، کوٹ لکھپت جیل تو وی آئی پیز کیلئے گھر سے زیادہ آرام دہ، سنا جا رہا، ایک صاحب نے برگر کھا نے کی فرمائش کی اور ساتھ بتایا برگر لانا کہاں سے، برگر وہیں سے آیا، ایک صاحب نے رات گئے مچھلی کھانے کی فرمائش کی اور ساتھ بتایا مچھلی لانی کہاں سے، مچھلی وہیں سے آئی۔سنا جا رہا، وہ شاہد خاقان عباسی جن کی ایمانداری، سادہ پن کے قصے سنا سنا ایک دنیا جھلّی ہو چکی بلکہ جو کچھ ان کے بارے میں لکھا، سنایا جا چکا، یہ خود سن، پڑھ لیں، ہنس ہنس بے حال ہو جائیں، یعنی کرپشن کا مجرم نواز شریف جس کا قائد، جعلسازی، جھوٹ بول چکی مریم نواز کے جو ماتحت کام کرنے کو تیار، نیب کے مجرم، پلی بارگین کر چکے،ضمانت پر مکمل جرمانہ بھی ادا نہ کرنے والے اس بزنس ٹائیکون جو آج کل پھر نیب حراست میں، اسے ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکہ دیں، تعریفیں تو بنتی ہیں،خیر عباسی صاحب نے پہلے یہ کہہ کر داد سمیٹی کہ نہیں چاہئے کوئی سہولت، نہیں چاہئے وکیل، اب وکلا کی خدمات لے لیں اور ان کے وکلا آصف زرداری جتنی سہولتیں مانگ چکے بلکہ بہت ساری سہولتیں حاصل بھی کر چکے، سہولتیں کیا، ٹی وی، فریج، ریڈیو، انورٹر ایئر کنڈیشنر (گرم، سرد کرنے والا ایئر کنڈیشن)، مائیکرو ویو اوون، مائیکرو ویو ٹوسٹر، کمپیوٹر، ٹیبل، بیڈ، بستر، مچھر دانی، مچھر مار لائٹ، گھر کا پرہیزی کھانا، اخبارات، کتابیں، 13افراد کو ملنے، ملازم رکھنے کی اجازت، یہ معلوم سہولتیں، نامعلوم سہولتیں الگ۔سنا جا رہامریم نواز کے گرد و نواح کھٹمل، مچھر، خبر چھپی، معاشرے کی مامتا جاگی، آنسو بہنے لگے، کسی کو یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی، مریم نواز کوٹ لکھپت جیل میں، کوٹ لکھپت جیل لاہور میں اور لاہور وہ جس پر شہباز شریف نے پورے پنجاب کے فنڈز لگا دئیے، پھر کیوں کھٹمل، مچھروں کا خاتمہ نہ ہو سکا، کیا شریف کے محل جاتی امرا میں کھٹمل ہیں، نہیں، کیا شریفوں کے کیمپ دفتروں میں ایک کھٹمل بھی تھا، نہیں، پھر کوٹ لکھپت جیل میں کھٹمل کیوں،وہ پنجاب جس پر 2بار نواز شریف، 3بار شہباز شریف حکمرانیاں کر گئے، اس پنجاب کے دل لاہور کی جیل میں کھٹمل، سیدھی سی بات، جیل میں اسلئے کھٹمل، کیونکہ جیل میں بند انسان بھی کھٹمل، اب بھلا کھٹملوں کو کھٹملوں سے کیا بچانا،یہ تو مریم نواز پہلی انسان، جیل گئیں، پتا چلا جیل میں بھی کھٹمل ہوں، سنا جا رہا، شہباز شریف جوڈیشل ریمانڈ پر کوٹ لکھپت جیل پہنچے، دو چار دن بعد چھوٹے میاں نے 10لاکھ قیدیوں کی ویلفیئر کیلئے دیئے، جس روز ضمانت ہوئی اسی دن اپنا خرچہ کٹوا کر 9لاکھ 41ہزار لے کر چلتے بنے، کیا سمجھے، قیدیوں کی ویلفیئر کا مطلب اپنی ویلفیئر۔اکثر سوچوں، غریب، بے سہارا قیدیوں کی کسی کو فکر ہی نہیں، سب کی سوچ زرداری صاحب، فریال تالپور، نواز شریف، مریم نواز تک پہنچ کر ختم ہو جائے، انہی کا درد، درد لگے، انہی کی تکلیف پر تکلیف ہو، انہی کا ذکر آتے ہی انسانی حقوق یاد آ جائیں،کسی کو معلوم کہ پنجاب کی 32ہزار 4سو 27قیدیوں کی گنجائش والی 41جیلوں میں 48ہزار ایک سو 90قیدی، مطلب سولہ ہزار اضافی قیدی، یہ کیسے رہتے ہوں گے، کہاں سوتے ہونگے، کسی کو کوئی پروا، کسی کو معلوم کہ 48ہزار ایک سو 90 قیدیوں میں سے 18ہزار بیمار، ہیپاٹائٹس، کینسر، ایڈز کے بھی مریض، شوگر، بلڈ پریشر، اعصابی تناؤ، دباؤ تو ہر دوسرے قیدی کو، کسی کو کوئی پروا، یہ چھوڑیں، کسی کو معلوم کہ پنجاب کی 41جیلوں میں 829 خواتین بھی قید، مگر دکھ صرف مریم کا، ان 829 خواتین کو بھی کھٹمل کاٹتے ہوں گے، کسی کو معلوم کہ پنجاب کی 41جیلوں میں 727بچے بھی،یہ بھی انسانوں کے بچے، یہ بھی چھوڑیں،کسی کو معلوم کہ محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کے 22ہزار کے قریب ملازم، ان میں سے 12ہزار مریض، زیادہ تر ذہنی بیمار، مگر بات وہی ان سب کا تعلق زرداری اینڈ کمپنی یا خاندانِ شریفاں سے نہیں،لہٰذا مرتے ہیں تو مر جائیں، چھوڑیں، ہم کس بحث میں پڑ گئے، آؤ مل کر مریم نواز کے کھٹملوں کو ماریں، یہ ضروری ہے۔