جلسہ عام میں جیسے ہی قائدِ مِلّت تقریر کرنے کے لیے اٹھے اور ابھی دو الفاظ’’برادرانِ اسلام ‘‘ ہی بولے تھے کہ دو گولیاں چل گئیں۔ ایک ان کے سینے میں پیوست ہوگئی اور دوسری نے ان کے قاتل کو ڈھیر کردیا۔
قائدِ مِلّت کی شہادت16اکتوبر1951کو راول پنڈی میں واقع ہوئی۔ جمہوریت کا چراغ اس دن بجھ گیا اور نوکر شاہی کے لیے آگے بڑھنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔
خود شہادت والے واقعے کی نوعیت یہ تھی
قائدِ مِلّت 16اکتوبر کی صبح راول پنڈی پہنچے ۔ان کو جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا ۔بہ قول بیگم رعنا لیاقت علی خان ،جن کا انٹرویو حال ہی میں ایک مقامی اخبا ر میں چھپ چکا ہے، شہیدِمِلّت کو اس جلسہ عام کے سامنے نئے انتخابات کا اعلان کرنا تھا (اگر اس روز یہ اعلان ہوجاتا اور انتخابات ہوجاتے تو تاریخ بدل جاتی ۔اور نوکر شاہی کے سیاسی عزائم خاک میں مل جاتے ۔کیوں کہ انتخابات سےنظامِ جمہوریت میں از سرِ نو توانائی پیدا ہو جاتی)۔
مگر ہوا یوں کہ اس جلسہ عام میں جیسے ہی قائدِ مِلّت تقریر کرنے کے لیے اٹھے اور ابھی دو الفاظ’’برادرانِ اسلام ‘‘ ہی بولے تھے کہ دو گولیاں چل گئیں۔ ایک ان کے سینے میں پیوست ہوگئی اور دوسری نے ان کے قاتل کو ڈھیر کردیا۔ یعنی موقعے پر ہی بانس کے کٹ جانے سے بانسری کے بجنے کا خطرہ نہیں رہا۔
قتل کی تفتیش کا کام مرکز کے ایک پولیس افسر کے سپرد ہوا۔ وہ بد قسمت افسر کچھ دستاویزلیے ابھی کراچی آرہا تھا کہ اس کا ہوائی جہاز کراچی پہنچنے سے پندرہ منٹ پہلے راستے ہی میں گر کر تباہ ہوگیا۔افسر مرگیا،تفتیش کے کاغذ جل گئے۔
آن دفتر سے راگا ؤخورد،گاؤ راقصاب برد،قصاب ہم مرد
!
شہید کی بیوہ کے بین نےطوالت پکڑی تو اس کو سفارت دے کر ملک سے ہی باہر بھیج دیا گیا۔
یہ خونیں ڈراما اگر امریکا جیسے ملک میں ہوتا تو اس پر کم از کم کئی ایک ڈیٹیکٹیو فلمیں بن جاتیں۔مگر یہاں دستور کے مطابق سارا بوجھ قدرت کے سر تھوپ دیا گیا اور اگر کوئی انکوائری ہوئی بھی تو اس کی رپورٹ عوام کے سامنے نہیں آئی۔حساب ِ دوستاں درِ دل !
بہ ہر حال قائدِ مِلّت جیسا وزیرِ عظم،جو پاکستان کو صحیح جمہوری ملک بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا اور قائد اعظم کے بعد تنہا ملک کی امیدوں کا سہارا تھا، بغیر کچھ کہے یا وصیت کیے یا آخری پیغام دیے،ایک بیوہ اور،دو کم سن بچے اور چار سگریٹ لائٹروں پر مشتمل جائیداد چھوڑکر ہم سے رخصت ہوگیا۔
خالی ہاتھ آیا تھا اور خالی ہاتھ چلا گیا۔اپنوں سے اپنی عمر بھر کی خدمات کا صلہ پاکر
!
یہ واقعہ درکنار ،حقیقت یہ ہے کہ نئے انتخابات کی بات وزیراعظموں کےلیے ہمیشہ خطرناک ہوتی رہی ۔ 1951میں لیاقت علی خان مرحوم ابھی، بہ قول ان کی راز دار بیوی کے ،نئے انتخابات کا اعلان کرنے والے تھے کہ اس طرح مارے گئے۔1958میں فیروز خان نون ، وزیر اعظم،اسی طرح 1956والے آئین کے تحت نئے عام انتخابات کا رسمی اعلان کرنے کے لیے لاہورسے کراچی پہنچےتھے کہ مارشل لا لگ گیا۔اور خود ڈسمس ہوگئے۔
لیاقت علی خان مرحوم کیوں شہید کردیےگئے؟سید اکبر کے علاوہ کوئی اور بھی اس کام میں اس کے ساتھ شریک تھا یا نہیں ،قتل کسی سازش کے تحت ہوا یا یہ ایک انفرادی فعل تھا،سید اکبر کا پس منظر کیا تھا؟۔۔۔۔۔ان سوالات کے جوابات کم ازمجھے معلوم نہیں۔اس زمانے میں تو جتنے منہ تھے، اتنی باتیں تھیں۔اب اکتّیس سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد ان باتوں کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا،یا کسی شخص یا گروپ پر الزام دھرنا بے انصافی ہوگی۔
بہ ہر حال جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی بدقسمتی اور اس کے جمہوری خوابوں کی پراگندگی پر منتج ہوا۔البتہ بہ ظاہر، ،لیاقت علی خان مرحوم کی شہادت نو کر شاہی کے لیے وجہ ترقّیِ درجات بن گئی۔بہ قول شاعر
عالمے رازندہ کردی آفرین بر مُردنت
راتوں رات نوکر شاہی کے پروموشن ہوگئے اور پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کی موت کے سامان ہو گئے۔مثلا:
(1) مفلوج غلام محمد مرحوم، جس کو چوہدری محمد علی مرحوم کے قول کے مطابق (صفحہ294،چوہدری صاحب کی کتاب دی ٹاسک بی فور اس) لیاقت علی خان مرحوم کابینہ سے نکالنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔اب بیساکھیوں کے سہارے کھڑا کرکے گورنر جنرل کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا گیا۔(غلام محمد کے لیے یہ جگہ پیدا کرنے کی خاطر خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل سے ہٹا کر نام کا پرائم منسٹربناکر غلا محمدکےپاوں تلے روند دیا گیا ۔ اور وہاں سے بھی پہلی فرصت میں اس کو ڈسمس کرکے بھیج دیا گیا۔)
(2) چوہدری غلام محمد مرحوم و مغفور سیکریٹری تھے ۔ اب ترقی پاکر وزیر خزانہ بن گئےاور اس پوزیشن میں آگئے کہ وہ پاکستان کی اقتصادی ،معاشی اور مالیاتی پالیسیاں بناتے رہیں۔
(3) اسکندر مرزا مرحوم ترقی پاکر سیکریٹری دفاع بن گئے۔۔۔۔۔۔ پھر گورنر مشرقی پاکستان بن گئے جہاں سے جست لگاکر وہ پہلے مرکزی وزیر اور بعد میں غلام محمد مرحوم کے جا نشین ،یعنی گورنر جنرل بن بیٹھے۔
(4)خان قربان علی خان مرحوم، لیاقت علی خان کی شہادت والے وقعے کے وقت وہاں کے آئی جی پولیس تھے۔قتل کی انکوائری ختم ہوجانے کے بعد ان کو صوبہ بلوچستان کا سربراہ اے جی جی بنادیا گیا۔
ان حضرات کے علاوہ نوکر شاہی کے باقی آدمیوں کے بھی نصیب کھل چکے تھے۔ان میں سے ہر چھوٹے بڑے کو اس من و سلوی میں سے کچھ نہ کچھ نوالہ تر مل گیا ۔ آپ اس سال کی سول لسٹ ،جس میں افسروں کے نام اور ان کے عہدوں کی فہرست ہوتی ہے، سامنے رکھ کر خود دیکھ لیجیے کہ پاکستان میں اس وقت کون سے کلیدی عہدے تھے اور ان پر کون ترقی پاکر بیٹھ گیا تھا۔کِس کِس کو یکایک کیا کیا پروموشن ملا ؟پاکستان کی کون سی رگ رہ گئی جس میں نوکر شاہی کا نشتر نہ چبھا ہو۔
بڑے عہدے، مثلا گورنر جنرل ،وزارت وغیرہ تو سیاسی عہدے تھے اور یہ عوام کی مرضی اور ووٹ سے ہی تقسیم ہونے چاہیے تھے،مگر یہاں یہ عہدے بھی بالا بالا نوکر شاہی کے آدمیوں نے آپس میں تقسیم کرلیے ۔۔ ۔ ۔ ۔۔عوام سے کسی نے نہیں پوچھا ۔پارٹی کی رائے کسی نے نہ لی۔
میں نے شروع میں واضح کردیا ہے کہ مجھے نوکر شاہی کے اس زمانے کے بزرگوں کی حب الوطنی پر کوئی شک و شبہ نہیں۔میں ان میں سے کسی کو بھی اس سازش میں ملوث نہیں سمجھتا۔ان میں بہت اچھے آدمی بھی تھے۔جو واقعتا پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے تھے ۔کم از کم وہ لوگ دوسری قباحتو ں سے،جو بعد کی نوکر شاہی میں ڈیولپ ہوئیں،صاف اورپاک تھے۔میں ان کے سیاسی عزائم یامحلاتی جوڑ توڑ کو بھی پاکستان دشمنی پر محمول نہیں کرتا۔میرا خیال یہ ہے کہ غالبا انہوں نے سمجھ رکھا تھا کہ وہ خودپاور میں آکر پاکستان کی خدمت سیاست دانوں سےبہتر کر سکتےہیں۔یہ اور بات ہے کہ ان کا یہ عمل آگے چل کر پاکستان کے حق میں سخت نقصان دہ ثابت ہوا۔
ان سے شکایت صرف اتنی رہ گئی کہ جب وہ سیاسی کام نہیں جانتے تھے تو انہوں نے سیاست میں ہاتھ ہی کیوں ڈالا؟ وہ یہ حقیقت محسوس نہیں کرسکے کہ سیات کے لیے سٹیٹمینشپ اور اعلی درجے کے تدبر اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ صلاحیتیں عوام سے دور دفتروں کی تاریکیوں میں بیٹھ کر قلم چلانے والوں میں یکا یک نہیں آسکتیں۔با الفاظ دیگر، بیل گاڑی چلانے والوں کو ہوائی جہاز چلانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی۔
چند باتیں البتہ،اس بارے میں ،لوگوں کے ذہنوں میں اب تک کھٹکتی رہی ہیں ۔جن کے متعلق کوئی تسلی بخش وضاحت میسر نہیں ہوسکی ہے۔مثلا:
(1) اگر نوکر شاہی کے لوگوں کے شروع سے ہی سیاسی عزائم نہیں تھے۔۔۔۔۔اگر ان کا ارادہ سیاست میں داخل ہونے اور سیاسی عہدوں پر قابض ہونے کا نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔اور اگر وہ پہلے سے یہ ذمے داری اٹھانے کے لیے تیاری نہیںکیے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔تو یہ کیسے ہواکہ اِدہر لیاقت علی خان مرحوم نے دم توڑا اور اُدہر فٹافٹ جیسے کسی نے بجلی کا بٹن دبا دیا ہو،اسی رات کی تاریکیوں میں چند گھنٹوں کے اندر اندر،نوکر شاہی کے بزرگ خود کلیدی عہدوں پر بیٹھ گئے؟نہ کوئی انتخاب ہوا ، نہ اسمبلی بلائی گئی،نہ عوام سے یا پارٹی سے کسی نے پو چھا ۔ کیا یہ کام کسی کمپیوٹر سے ہوا؟میں اپنی طرف سے کوئی رائے نہیں دیتا۔
(2) دوسری الجھن والی بات خود لیاقت علی خان مرحوم کی شہادت والے واقعے سے تعلق رکھتی ہے۔گو کہ اس بات کا تعلق نوکر شاہی والے پہلو سے نہیں ۔
آپ یہ اسٹوری سن چکے ہیں کہ دو گولیاں چلیں ۔ ایک سے لیاقت علی خان شہید ہوگئے اور دوسری سے ان کا قاتل اسی گھڑی ڈھیر ہوگیا۔
اب آپ کسی تجربہ کار نشانہ باز سے پوچھیے کہ پیشگی سوچ،پلاننگ اور تیاری کیے بغیر یہ کس طرح ممکن ہو سکتا تھا کہ نشانہ باندھنے میں اس قدر پھرتی دکھائی جاسکتی ؟اور پھر جہاں بھگدڑ مچ گئی ہو، یہ کس طرح ہوا کہ قاتل کو مارنے والی گولی اس قدر ضحیح طریقے سے سیدھی قاتل کو جاکر لگی اور مجمع میں کسی اورشخص اور آدمی کو اس گولی نے چھواتک نہیں۔۔۔۔۔۔ خاص طور سے گولی جب کہ ریوالور جیسے مشکل ہتھیار سے چلی۔رائفل یا شاٹ گن سے بھی نہیں؟
میں ساری عمر شکار کھیلتا اور ہر قسم کا اسلحہ استعمال کرتا رہا ہوں۔۔۔۔ میری نظر میں یہ ناممکن تھا کہ پیشگی سوچ ، تیاری اور صحیح پوزیشن لیے بغیر اعصابی کھینچاو اور نفسیاتی الجھاو کی اس نازک گھڑی میں کوئی نشانہ باز اس قدر خاضر دماغی دکھا سکتاکہ اتنے بڑے مجمعے میں وہ قاتل جیسے ایک متحرک نشانے پر صحیح طورسے گولی بٹھا سکے ۔ ۔ ۔ ۔۔ اور وہ گولی بھی اس کے جسم پر اس جگہ پر پڑے کہ وہ بغیر پھڑ پھڑائے ،ہاتھ پاوں مارے یا کچھ بولے ٹھنڈا ہوجائے؟
یہ چند کلیدی سوال تھے جن پر غورہونا چاہیےتھا۔غور ہوا یا نہیں اور اگر ہوا تو نتیجہ کیا نکلا،یہ میں نہیں جانتا۔ممکن ہے کہ کسی روز مستقبل کا کوئی محقق یہ کام سر انجام دے۔ میرے اپنے ذہن میں جو کچھ خدشات تھے وہ میں نے سامنے رکھ دیےہیں۔میں یہ ماننے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں کہ یہ سب کام نیچر کی انجینئرنگ کا تھا۔۔۔۔۔اکبر کا لیاقت علی خان پر گولی چلانا۔۔۔۔۔کسی شخص کا عین اسی لحظہ اکبر پر گولی چلا کر اس کو خاموش کر دینا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کام میں نہ کسی رکاوٹ، نہ کسی ایکسیڈنٹ ،نہ کسی انسانی غلطی یا غلط اندازہ کا حائل ہونا ۔ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس روز نیچر خود دنیا جہاں کے کام کاج چھوڑکرراول پنڈی میں یہ دیکھنے کے لیے بیٹھ گئی ہو کہ یہ نازک کام کسی رخنے اور رکاوٹ کے بعیر پایہ تکمیل کو پہنچ جائے!
بہ ہر نوع یہ ظلم جس نے بھی کیا، جس طرح بھی کیااس کا نتیجہ (بالواسطہ)نوکر شاہی کے حق میں کسی قدر اچھا نکلا اور اس کے سیاست میں آنے کے لیے راستے کھل گئے۔
اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو چار گروپ قائد اعظم کے انتقال کے بعد وجود میں آگئے تھے اور جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے،ان میں سے بالآخر (اور اتفاقیہ ہی سہی)یہ نوکر شاہی والا گروپ ہی اس کھیل میں کام یاب رہا۔
کام یاب ہوجانے کے بعد اسی گروپ کے آدمیوں نے، جس طرح کہ 1951سے بعد کے دور کے لوگوں کو یاد ہوگا ملک کے حق میں کیا گل کھلائے۔ اس کا تجربہ قدرے نقصان دہ رہا۔مثلا۔۔۔۔۔۔
کس طرح جمہوری اداروں کو تباہ کیا گیا؟
کس طرح سیاست دانوں کی تذلیل ہوتی رہی؟
(حتی کہ قائد اعظم کی ہم شیرہ کا احترام بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا)
کس طرح آئین ساز اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوںکو نیست و نابود کیا گیا؟
کس طرح آئین توڑا اور آئین توڑنے کی رسم رائج کی گئی؟
کس طرح وزیر اعظم کو بغیر مسلم لیگ پارٹی سے پوچھے ڈسمس کیا گیا؟
کس طرح صوبائی وزارتوں کی توڑ پھوڑ ہوتی رہی اور اٹانومی کا اصول ٹوٹتا رہا؟
کس طرح صوبائی اسمبلیاں توڑی گئیں اور ان کا وجود بے معنی بن گیا؟
کس طرح عوام کے منتخب نمائندوں کو بے آبرو کرکے بھگایا گیا یا چمچہ بننے پر مجبور کیا گیا؟
کس طرح جمہوری عہدوں کا وقار زائل اور ان کی اہمیت و فعالیت ختم کردی گئی؟
کس طرح عام انتخابات کو ہر دفعہ پیچھے دھکیل کر عوام کو عضو ِمعطل بنادیا گیا؟
کس طرح کوتاہ اندیشی پر مبنی پالیسیوں سے صوبائی تعصبات اور مرکز گریز رجحانات کو جنم دیا گیا؟
کس طرح نوکر شاہی کا جال وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا،عہدوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا(جس میں آدھا ملک چلے جانے کے بعد بھی کوئی تخفیف نہیں ہو ئی ) اور یہ خرچ پوراکرنے کے لیےبے دردی سے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں بے پنا اضافہ ہونے لگا؟
کس طرح شاہ خرچیوں اور نوکر شاہی کی پرورش والے بوجھ کی وجہ سے غلظ مالی پالیسیاں بنیں اور پاکستان ایک مقروض ،محتاج اور گداگر ملک بن گیا؟
کس طرح غلط خارجہ پالیسیوں سے آزاد ملک کی خودمختاری کو مجروح کیا گیااور اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا؟
کس طرح باہر کے ملکوں کی یہاں خفیہ لابیاں کھلیں اور ہمارے ہی آدمی ان کے مفاد میں کام کرنے لگے؟
کس طرح اندرونِ ملک نفع اندوزی،رشوت خوری ، کالونی سازی اور اقربا پروری جیسی قباحتوں کی بنیاد پڑ ی ؟
کس طرح ملکی انتظام پُھس پُھسا ہوکر رہوگیا۔اکثر محکموں کی کارکردگی صحیح نہیں رہی اور پبلک محصول بھی دیتی رہی اور پوری سروس نہ ملنے کی وجہ سے اپنا سر بھی پیٹتی رہی ؟خود لا اینڈ آرڈر ،جان و مال کی سلامتی بھی قصہ پارینہ بن کر رہ گئے۔
جب سول نوکر شاہی تھک گئی تو کس طرح اس نے ایوب خان والوں سے مل کر مارشل لا لگواکر ان کے زیرِ سایہ راج کرنا شروع کردیا؟
کس طرح سیاست اور جمہوریت کی آبرو ختم ہو گئی؟
کس طرح اچھے آدمی سیاست کو خطرناک کام سمجھ کر گوشہ نشین ہوگئےاور ان کی جگہ چمچوں نے لےلی ۔ جنہوں نے اس نئی سیاست کا مقصد محض پرمٹ ،پلاٹ اور مالی منفعت کا حصول قرار دے دیا؟ (جب سیاست کے مقاصد بدل جاتے ہیں اور سیاست کی آبرو نہیں رہتی تو چمچہ قسم کے موقع پرست لوگ سیاست کو ان ہی چیزوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔)۔یعنی گندم اگر بہم نہ رسد،بُھس غنیمت است۔
سفرِ زندگی
سولہ اکتوبر 1951 کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راول پنڈی میں پاکستان مسلم لیگ کے جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ اوائل سرما کی اس شام نواب زادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے۔ ان کے استقبال کے لیے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی رہنما موجود نہیں تھا۔ مسلم لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم لیگ گارڈز کے مسلح دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔ پنڈال میں چالیس پچاس ہزار کا مجمع موجود تھا۔
مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔انہوں نے ابھی ’’برادرانِ ملت‘‘کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے۔ اگلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر نے پستول نکال کر وزیر اعظم پرگولی چلادی۔ پہلی گولی وزیر اعظم کے سینے اور دوسری پیٹ میں لگی۔وہ گر پڑے۔
نو سیکنڈ بعد 9 ایم ایم پستول کا ایک فائر سنائی دیا پھر یکے بعد دیگرے ویورلے ریوالور کے تین فائر سنائی دیے۔ اگلے 15 سیکنڈ تک ریوالور اور رائفل کے ملے جلے فائر سنائی دیتے رہے۔ اس وقت تک قاتل کے ارد گرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر لیا تھا۔ اس کا پستول چھین لیا گیا تھا مگر ایس پی نجف خان کے حکم پر انسپکٹر محمد شاہ نے قاتل پر سرکاری پستول سے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلا کر اسے ختم کر دیا۔
وزیر اعظم شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لائے گئے۔ وزیر برائے امورِ کشمیر نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم کو اسی گاڑی میں ملٹری اسپتال پہنچایا گیاجہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے۔
لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے پراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ان کا قتل وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی قیادت سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ سے نکل کر سرکاری اہل کاروں اور ان کے کاسہ لیس سیاست دانوں کے ہاتھ میں پہنچی۔ قتل کے محرکات، سازشیوں کے نام اور واقعات کا تانا بانا شکوک و شبہات کی گہری دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔
یکم اکتوبر 1890 کو کرنال ( مشرقی پنجاب)کے متمول زمیں دار نواب، رستم علی خاں کے ہاں پیدا ہونے والے لیاقت علی خاں نے علی گڑھ اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ 1926 میں یوپی کی مجلسِ قانون سازکے رکن منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ہندوستان کی مرکزی سیاست میں نمایاں حیثیت برقرار رکھی۔ ان کی بنیادی شناخت مسلم اشرافیہ کی سیاست تھی۔
وہ ابتدا ہی سے محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ہیکٹر بولیتھو کے مطابق قائد اعظم کو 1933 میں انگلستان سے واپس آ کر مسلم ہندوستان کی سیاست میں دوبارہ شریک ہونے پر لیاقت علی خان ہی نے آمادہ کیا تھا۔ 1940 کی قرار دادِ لاہورکے بعد سے لیاقت علی خان، مسلم لیگ میں قائداعظم کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔
شخصی زندگی میں لیاقت علی خان روشن خیال اور مجلسی مزاج رکھتے تھے۔ وہ ہندوستان کی پہلی عبوری حکومت میں وزیر خزانہ بنے۔ تقسیم ہند کے بعد انہیں پاکستان کا وزیرِ اعظم منتخب کیا گیا۔
انہوں نےآکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور1922میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کی ۔ 1923میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔1936میں مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل بنے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ان کی والدہ محمودہ بیگم نے گھر پر ان کے لیےدینی تعلیم کا انتظام کیاتھا۔ 1918 میں انہوں نےایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918 ہی میں ان کی جہانگیر بیگم سے شادی ہوئی۔
شادی کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے جہاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ برطانیہ سے واپس آنے کے بعد انہوں نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔1924میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیرِ قیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دربارہ منظم کرنا تھا۔ اس اجلاس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔ 1926 میں وہ اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940 میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔1932میں دوسری شادی کی۔ ان کی دوسری بیگم ، رعنا لیاقت علی ماہر تعلیم اور معیشت داں تھیں۔وہ لیاقت علی خان کی زندگی کی بہترین معاون ثابت ہوئیں۔
زندگی کا بہت بڑا فیصلہ
پچاس کی دہائی میں ایک بیوروکریٹ نے بیگم لیاقت علی خان سے پوچھا کہ انسان اپنی اولاد کے لیے کچھ نہ کچھ جمع کرتا ہے،خان صاحب نے کیوں ایسا نہیں کیا؟ بیگم صاحبہ نے جواب دیاکہ ایک بار میں نے بھی خان صاحب سے یہ سوال پوچھا تھا۔خان صاحب نے جواب دیا میں ایک نواب خاندا ن سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے زندگی میں کبھی ایک لباس دوسری بار نہیں پہنا تھا۔میرے خاندا ن نے مجھے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھیجا تو مجھے خانساماں، خادم اور ڈرائیور دے رکھا تھا۔ہم کھانا کھاتے یا نہ کھاتے ہمارے گھر پچاس سے سو لوگوں کا کھانا روزانہ پکتا تھا۔لیکن جب میں پاکستان کا وزیر اعظم بنا تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ لیاقت علی خان اب تمہیں نوابی یا وزارت عظمی میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا اور میں نے اپنےلیے وزارت عظمی منتخب کر لی۔
سادہ زندگی
بیگم رعنا لیاقت علی خان کے مطابق قائد ملت فرمایا کرتے تھے کہ میں جب بھی اپنے لیے کپڑا خریدنے لگتا ہوں تواپنے آپ سے سوال کرتا ہوںکہ کیا پاکستان کے سارے عوام کے پاس کپڑے ہیں۔میں جب اپنا مکان بنانے کا سوچتا ہوں تو اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا پاکستان کے تمام لوگوں کے پاس اپنے گھر ہیں۔جب میں اپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ جمع کرنے کا سوچتا ہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا پاکستان میں سب لوگوں کے بیوی بچوں کے لیے کچھ ہے؟جب سب سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے تو میں اپنے آپ سے کہتاہوں کہ لیاقت علی خان ایک غریب ملک کے وزیر اعظم کو نئے کپڑے، لمبا چوڑا دسترخوان اور ذاتی مکان زیب نہیں دیتا۔
’طیارہ خراب نہیں تھا، وزیراعظم کو واپس نیویارک بلایا گیا تھا‘
کراچی میں قتل کی جانیوالی مصباح کے والد نے بیٹی کے قاتل کی شناخت کرلی
http://www.yesurdu.com/