ایک عورت روتی ہوئی حضرت علیؓ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے خاوند نے میری اجازت کے بغیر ہی میری باندی سے تعلق قائم کر لیا ہے.حضرت علیؓ نے اس کے خاوند سے کہا کہ تم کیا کہتے ہو؟اس نے کہا: میں نے اس کی اجازت سے ہی اس کے ساتھتعلق قائم کیا ہے. حضرت علیؓ نے اس عورت کی طرف دیکھا اور اس کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا اگر تو سچی ہے تو میں اس کو سنگ سار کروں گااور اگر تو جھوٹی ہے تو میں تجھے تہمت کی سزا میں اسی کوڑے لگاؤں اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، حضرت علیؓ اس عورت کو چھوڑ کر نماز پڑھنے لگے۔ عورت نے سوچا تو اسے اپنے خاوند کا سنگسار کیا جانا.یا اس کو کوڑے لگنا تکلیف دہ محسوس ہوا۔ چنانچہ وہ بھاگ گئی۔
جب حضرت علیؓ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آئے تو اس عورت کو نہ پایا اور آپؓ نے اس کے بارے میں پوچھا بھی نہیں۔جن کے پجاریوں کو ان بتوں آگے سجدہ کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا ایک لڑکا ایک لڑکی سے بے انتہا محبت کرتا تھا، یہ آج کی بات نہ تھی وہ تو سالوں سے اس کے عشق میں پاگل تھا۔ پورا محلہ جانتا تھا کہ اس لڑکے کو اس لڑکی سے پیار تھا۔ وہ لڑکا اتنا صاف اور پاک عشق کرتا تھا کہ اسے سچ مچ محسوس ہوتا تھا کہ ان کا مقدس رشتہ وقت اور زمانے کی قید سے آزاد تھا، اسے وہ لڑکی صدیوں پر محیط لگتی تھی اور لگتا تھا جیسے وہ اسے جنم جنم سے جانتا ہو ۔ اس کی ان کہی باتوں کو سمجھ سکتا ہو۔ اس کی حالت سے سب یار دوست آشنا تھے۔ ایک دن اس کا ایک دوست بولا :تم اس سے اتنی شدید محبت کرتےہو ہمیں رشک آتا ہے یار۔
اسکو جا کربتاؤ تو سہی کہ تمہارے دل کا کیا حال ہے۔باقی دوستوں نے بھی تائید میں سر ہلایا۔ لڑکے نے سوچا کہ ٹھیک ہے، اس لڑکی کا بھی حق بنتا ہے کہ اسے بھی پتہ چلے۔ لڑکا ٹیولپس کا ایک گلدستہ لیکر لڑکی کے پاس گیا اور اس کو اپنے دل کی حالت بتائی۔ لڑکی پہلے سے جانتی تھی کہ وہ لڑکا اس سے بہت پیار کرتا تھا، سارے جہان میں مشہور تھا، ہر ایک کو پتہ تھا۔ عشق مشک ویسے بھی چھپائے نہیں چھپتے۔۔۔اپنی مہک ہر طرف پھیلا دیتے ہیں۔ لڑکے نے لڑکی سے اعتراف محبت کیا اور لڑکی نے بتایا کہ میں جانتی ہوں لیکن میں تمہارے بارے میں اس طرح نہیں سوچتی۔ لڑکا مسکرایا اور چلا گیا۔اس کے دوستوں کو پتہ لگا تو بہت پریشان ہوئے کہ اس کی زندگی کا محور اس کی پاکیزہ محبت تھی پتہ نہیں اب یہ کیا کر گزرے۔ وہ دن رات یس کے ہمراہ رہنے لگے کہ کہیں لڑکا خلوت میں کوئی شدید قدم نہ اٹھا لے۔ کافی دن گزر گئے وہ حیران تھے لڑکا اب بھی اسی طرح ہنستا مسکراتا رہتا تھا، نہ اس نے مجنوں کی طرح بال بڑھائے نہ شیو۔۔۔کبھی کبھار ابھی بھی اس لڑکی کی بات بہت شیرینی سے کرتا۔ دوست سمجھ گئے کہیہ اب بھی اس کے عشق میں اندھا ہے، وہ لڑکی کوئی حسینہ یا ابصرہ بھی نہ تھی، یہ اب بھی اسے طرح اس کا نام سن کر ہی ہنسنے لگتا تھا۔ ایک دوست نے پوچھ ہی لیا کہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس نے نہ بول دی، تو نے برا نہیں منایا، نہ تو رویا، نہ تو نے بدلہ لیا اور آج بھی تو اس کا اسی طرح فین ہے۔ ہماری سمجھ میں تیری کوئی حرکت نہیں آتی۔ تجھے برا نہیں لگا اس لڑکی نے نہ کر دیا۔۔۔۔لڑکا بولا: میرے دماغ میں اس کا جو ہیولا ہے وہ ہمیشہ ایک پاکیزہ پری جیسا ہی رہے گا کیونکہ میری اس سے محبت اصلی ہے۔ اور وہ مجھے پسند نہیں کرتی تو اس میں میرا کیا نقصان ہے۔ نقصان اس کا ہوا کہ کوئی تو تھا جو اس کی اتنی فکر کرتا تھا اور وہ اس لڑکے کو خود کھو رہی ہے۔ وہ تو مجھے کبھی بھی پسند نہیں کرتی تھی تو میں نے بھلا کیا کھویا۔ کچھ سوکھے ہوئے پتے تھے میری آخری پونجی اب وہ بھی نہیں ہے کہ بہت تیز ہوا ہے محبت کا مطلب ہے دینا۔۔۔۔اور دینا۔۔۔۔اور دینا۔۔۔بغیر کسی صلے کی امید کے۔ یہ لازوال محبت ہوتی ہے جو انسان کو قوت دیتی ہے اور اسے خلیفہ بناتی ہے.