ہو جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان میں جب مال خرچ کرنے کے متعلق تم رشدوہدایت دیکھو تو ان کے مال ا ن کے حوالے کردو۔اس آیت میں رشد کے بعد مطلق طور پر ان کے مال ان کے سپرد کرنے کا کہا جارہا ہے لہٰذا عورت اصلا اس بات کی مجاز ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کر سکتی ہے۔اس طرح انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہ والی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقہ کے متعلق سوال کیا کہ کیا ان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے خاوند پر صدقہ کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں۔ (بخاری وغیرہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اجازت دی اور یہ شرط ذکر نہیں کی ۔اس لئے کہ جس فرد کی طرف اس کا مال رشد کی وجہ سے لوٹانا واجب ہے ۔اس کے لئے اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز ہے ۔مزد دیکھیں۔بہر کیف یہ دلائل عام ہیں اور ان میں خاوند کی اجازت کا ذکر نہیں اور یہ بات معلوم و معروف ہے کہ عدم ذکر سے فی ثابت نہیں ہوتی اور اس عموم کی تخصیص اوپر ذکر کردہ احادیث سے ہو جاتی ہے کہ عورت کو مال صرف کرتے وقت عطیہ‘صدقہ وخیرات کرتے وقت خاوند کی اجازت حاصل کر لینی چاہئے جہاں خاوند رکاوٹ کا باعث ہو یا معلوم ہو کہ وہ اس بات پر ناراض ہے اور اگر عرف عام کے مطابق عورت صدقہ وخیرات کرتی ہے اور خاوند کو بھی معلوم ہے اور وہ منع نہیں کرتا تو یہ بھی اس کی طرف سے اجازت ہےصحابیات کے صدقہ وخیرات کے جو واقعات ہیں جن میں اجازت کا ذکر نہیں شاید وہ اسی وجہ سے ہیں کہ صحابہ کرام بھی صدقہ وخیرات پسند کرتے تھے اور ان کی طرح ان کی ازواج بھی نیک اور دیندار تھیں وہ انہیں صدقہ وخیرات سے منع نہیں کرتے ہوں گے۔اور عورت کو اگر خاوند نیکی کے کاموں میں اس کا ذاتی مال صرف کرنے سے منع کرے تو قاضی کی طرف معاملہ پہنچایا جائے تا کہ وہ انصاف کرے جیسا کہ عورت کے نکاح میں رکاوٹ ہوتو عورت کی رضا حاصل کئے بغیر نکاح نہیں کرنا چاہئے اور مسلمان حکمران کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور اگر عورت مال کو تباہ وبرباد کرتی ہوتو خاوند کو روکنے کا پورا پورا حق ہے کیونکہ وہ عورت کا حکمران اور راعی ہے اور راعی کا حق ہے کہ وہ اپنی رعایا میں شرعی امور کا نفاذ کر ے جیسا کہ حدیث:سے واضح ہے۔ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب۔(آ پ کے مسائل اور اُن کا حل کتاب نمبر 3)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کو عورت پر حکمران بنایا ہے تاکہ اس کے معاملات کی صحیح نگرانی کرے اور اس کو پیش آنے والے مصائب میں اس کی حفاظت کا موجب بنے ارشاد باری تعالیٰ ہے :اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کو عورت پر حکمران بنایا ہے تاکہ اس کےمعاملات کی صحیح نگرانی کرے اور اس کو پیش آنے والے مصائب میں اس کی حفاظت کا موجب بنے ارشاد باری تعالیٰ ہے مردعورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ۔اس آیت کریمہ میں مرد کی حاکمیت وقوامیت کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک فضیلت وہی ہے جو مردانہ قوت ودماغی صلاحیت پر مبنی ہے جس میں مرد کو عورت سے خلقی طور پر ممتاز بنایا گیا ہے ۔اسی طر ح مجموعی لحاظ سے مرد کو عورت پر فضیلت دیتے ہوئے مرد کی گواہی مکمل اور عورت کی ادھوری رکھی گئی ہے ۔
ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتیں گواہی دیتی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عورت کے عقل کا نقصان قرار دیا ہے۔بہر کیف شریعت نے مرد کو عورت پر حکمران بنایا ہے اور اس کی حکمرانی کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو شرع کا پابند رکھے اورجو امور حکمت ومصالح پر مبنی ہوں ان پر عورت کی توجہ کو مرکوز رکھے مرد کو جو عورت پر حقوق عطا کئے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت کے پاس اگر اپنا ذاتی مال ہوتو وہ اسے خرچ کرتے وقت خاوند سے مشورہ کرے اور اجازت لے کر نیکی کے کاموں میں مال خرچ کرے۔1۔عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”عورت کا کوئی اختیار اپنے مال میں جائز نہیں جب خاوند اس کی عصمتکا مالک بن گیا ۔“عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ:”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیاتو خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا:عورت کے لئے خاوند کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں۔خاوندکی اجازت کے متعلق امام نووی فرماتے ہیں :اجازت کی دو قسمیں ہیں۔1۔خرچہ اور صدقہ وخیرات میں صریح اجازت2۔ایسی اجازت جو عرف سے سمجھی جائے جیسے سائل کو روٹی وغیرہ کا ٹکڑا دینا جیسا کہ عام طور پر گھروں میں معروف ہوتا ہے اور خاوند کی رضا اور روزمرہ کے معاملات کی وجہ سے معروف ہوتی ہے ایسے خرچ پر خاوند نہیں بولتا اور سمع ودرگزر میں وہ عام لوگوں کی طرح ہے تو اجازت صریح کی ضرورت نہیں اور اگر خاوند کی رضا مندی مشکوک ہو یا اس کا بخل معلوم ہوتو عورت کے لئے خاوند کے مال سے اس کی رضا مندی حاصل کئے بغیر صدقہ وغیرہ دینا جائزنہیں اس میں صریح اجازت کی ضرورت ہے۔اہل علم کے ہاں یہ بات مختلف فیہ ہے کہ وہ عورت جو رشد وہدایت والی ہو اور سمجھ بوجھ رکھتی ہو کیا اسے اپنے جمیع مال میں تصرف کا حق حاصل ہے یا نہیں ۔امام ابوحنیفہ ‘امام شافعی اور امام ابن منذر اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا یہ مذہب ہے کہ اسے اپنے مال میں تصرف کا حق حاصل ہے۔اور امام احمد کی ایک روایت یہ ہے کہ اسے ثلث سے زائد مال خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کرنا چاہئے۔
۔اوربعض اہل علم جیسے امام طاؤس لیث اور علامہ البانی وغیرہ کا موقف یہ ہے کہ عورت کو اپنے خاص مال میں تصرف کرنے کے لئے خاوند کی اجازت حاصل کرنی چاہئے اس میں خاوند کی حاکمیت جو اللہ تعالیٰ نے اسے عورت پر عطا کی ہے پوری ہوتی ہے ۔لیکن خاوند کے لئے یہ جائز نہیں جب وہ سچا مسلمان ہو کہ اس حکم میں خیانت کرے اور عورت پر جبر سے کام لے اور اسے اس کے ذاتی مال میں وہاں تصرف کرنے سے روکے جہاں ان دونوں کا کوئی نقصان نہیں اور یہ حق لڑکی کے ولی کے حق کے ساتھ کس قدر مشابہت رکھتا ہے کہ لڑکی کو جائز نہیں کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے جب ولی لڑکی کے لئے نکاح میں رکاوٹ ڈالے تو معاملہ شرعی قاضی کی طرف منتقل کیا جائے گا تاکہ وہ انصاف کرے اسی طرح عورت کے مال کا حکم ہے جب خاوند اس پر ظلم وجبر کرے اور اسے جائز تصرف سے روکے تو قاضی اس کے لئے انصاف مہیا کرے گا جمہور ائمہ نے قرآن حکیم کی اس آیت سے دلیل لی ہے کہ عورت کے اندر اگر سوچ و سمجھ اور مال کے تصرف کرنے میں رشدوہدایت موجود ہوتو اسے اپنا مال صرف کرنے کا حق حاصل ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:”اگر تم ان میں رشد پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کردو۔“اس آیت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ وہ یتیم بچے بچیاں جن کے کفیل تم بنائے گئے