لاہور (ویب ڈیسک) امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے کردوں کو پہلا دھوکا اس وقت دیا جب 1920 میں ان سے معاہدہ کیا کہ اگر وہ خلافت عثمانیہ کے خلاف انکا ساتھ دیں گے تو انہیں ایک ملک عطا کر دیا جائے گا، یہ معاہدہ ٹریٹی آف سورز کہلاتا ہے۔ لیکن 1923 میں ایک نیا معاہدہ ہوا نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جسے ٹریٹی آف لائوسانے کہتے ہیں،جس کے تحت کردوں کو پانچ ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔لیکن امریکہ نے کردوں کو اسلحہ دیا،آزادی کا خواب دکھایا اور انہوں نے ترکی کی سرزمین پرکرد جمہوریہ ارارات کا اعلان کردیا۔لیکن پھر امریکہ اور برطانیہ ترک حکومت کے ساتھ ہوگئے۔کردوں کو تنہا چھوڑ دیا۔ کردوں کو دوسرا دھوکہ اس وقت دیا گیا جب کردوں کو عراق کے حکمران عبدالکریم قسیم کے خلاف لڑنے کے لیے اسلحہ دیا گیا، لیکن ساتھ ہی صدام حسین کو قسیم کا تختہ الٹنے میں مدد دی گئی۔ جیسے ہی صدام حسین کامیاب ہوا کردوں کو تمام سپلائی روک دی گئی اور صدام حسین نے قوت سے ان پر قابو پالیا۔ 1970 میں صدام حسین اور عراقی حکومت سوویت یونین کے گروپ میں شامل ہوئی تو امریکہ نے شاہ ایران کے ذریعے ایرانی کردوں کو مسلح کیا تاکہ وہ عراق میں جاکر کاروائیاں کریں۔ صدام حسین نے شمال کی طرف پیش قدمی کی اور امریکہ نے صدام اور شاہ ایران کے درمیان صلح کروادی۔ کردوں کی مدد رک گئی اور ہزاروں کرد بے یارومددگار قتل کر دیے گئے۔ یہ امریکہ کا تیسرا دھوکا تھا۔ چوتھی دفعہ 1980 میں صدام حسین نے کردوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جس کا علم امریکی حکومت کو تھا۔ کانگریس میں صدام حسین پر پابندیاں لگانے کی سفارش کی جسے رد کردیا گیا کیونکہ صدام اس وقت اسلامی ایران سے جنگ میں امریکی مفاد پورا کر رہا تھا۔ پانچویں دفعہ جب 1991 میں پہلی عراق جنگ میں امریکہ نے عراق پر بمباری شروع کی تو جارج بش نے عراق کے شیعہ اور کرد وں سے کہا کہ وہ صدام کی فوج کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن اسی جنگ کے دوران عراقی فوج نے ہزاروں باغیوں کو قتل کیا اور امریکی فوج تماشہ دیکھتی رہی۔ چھٹی دفعہ امریکہ نے اسی جنگ کے فورا بعد کردوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ساتھ ملایا۔ سرمایہ اور انسانی مدد فراہم کی اور پھر اسلحہ دے کر انہیں مسلح کیا۔ اسی دوران وہی اصطلاح استعمال ہوئی جو آجکل طالبان کے بارے میں ہوتی ہے یعنی ”گڈ کرد” اور ”بیڈ کرد”۔ گڈ کرد عراقی تھے اور بیڈ کرد ترکی میں رہنے والے۔ یوں ترکی کو اسلحہ اور جدید ہتھیار فراہم کئے گئے جس کی وجہ سے کردوں کے ہزاروں گائوں مسمار کردیئے گئے۔ ساتواں دھوکہ بہت بڑا تھا۔ عراق پر 2003ء میں حملے سے پہلے کردوں کو آزاد کرد ریاست کا لالی پاپ دیا گیا۔ انہوں نے عراقی شیعوں کے شانہ بشانہ امریکہ کا ساتھ دیا۔ صدام حسین کو شکست ہوئی، لیکن کرد اسکے بعد بھی خاک و خون میں نہلاتے رہے۔ اب تو وہ اس جنگ زدہ زون کے سب سے زیادہ متاثرہ فریق بن گئے ہیں۔ شام، عراق، ترکی، اور ایران ہر کوئی انکے قتل کے درپے ہے۔ جہاں کہیں گروہوں میں جنگ شروع ہوتی ہے تو کردوں کی زمین ہی استعمال ہوتی ہے اور ان کے افراد اور خاندان متاثر ہوتے ہیں۔ عراق حکومت بنے کئی سال ہوگئے لیکن کرد آج بھی اسی طرح ذلیل و رسوا ہیں۔ آٹھویں دھوکے کا آغاز اس وقت ہوا جب کردوں کے جنرل مظلوم نے امریکی حکام سے کہا کہ تم ترکی کے ساتھ مل کر ہمیں مروانا چاہتے ہو۔ دیکھو ہم روس کے ساتھ مل جائیں گے۔ اس کے بعد ترکی نے شام پر حملہ کیا تو امریکہ شام کو روس کے حوالے کر کے آرام سے نکل گیا اور کرد بے بسی سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ تو وہی روس تھا جس کا ہم نے ڈراوا دیا تھا۔اب یہ روس ہمارے ہی خلاف ہے۔ کاش یہ کرد ایک بات سمجھ لیتے کہ انہیں یہ دھوکے اس لیے نہیں مل رہے کہ وہ کرد ہیں، بلکہ اس لیے مل رہے ہیں کہ وہ چار کروڑ مسلمان ہیں۔ یہی چار کروڑ اگر ایک امت واحدہ کی بات کرتے تو آج اس طرح ذلیل و رسوا نہ ہوتے۔ ترکی میں ہوتے تو وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ہوتے، شام، عراق اور ایران میں مسلم امہ کی بات کرتے تو کردوں کی سرزمین آج اس امت کی مرکزی سرزمین بن جاتی، وہ امت کی وحدانیت کے علمبردار بن جاتے، پرچم بردار ہوتے۔