اسلام آباد(ویب ڈیسک) حزب اختلاف کی جماعتوں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کا دھرنا ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کی بنیادوں پر ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ فیصلہ آج ہونے والی کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) میں کیا گیا۔ ان کے مطابق اجلاس کے دوران حکومت کے ساتھ مذاکراتکے دور شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دھرنے کو ایک سے دو روز میں ختم کیے جانے کا امکان ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جے یو آئی (ف) نے اپنے 15 اراکین قومی اسمبلی سے استعفے طلب کر لیے ہیں جو قیادت کے پاس رہیں گے اور مناسب وقت پر ان کا استعمال کیا جائے گا۔ اس سے قبل یہ خبر آئی تھی کہ اے پی سی آزادی مارچ کے مستقبل کے حوالے سے ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئی۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دی جانے والی تجاویز پر مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر اختلاف کا شکار ہو گئیں۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جو متفقہ فیصلہ ہو گا اس کا اعلان جلسہ گاہ میں جا کر کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کارکنان ہماری جانب دیکھ رہے ہیں، ہم اتفاق رائے کے ساتھ آگے جانا چاہتے ہیں۔ اجلاس کے دوران ن لیگ نے مؤقف اختیار کیا کہ غیر جمہوری عمل کی حمایت نہیں کرسکتے۔ ن لیگ کے وفد نے مشورہ دیا کہ پرامن مارچ کی مکمل حمایت کریں گے تاہم پرتشدد سرگرمی میں ساتھ نہیں دیں گے۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی جانب سے وزیر اعظم کے استفعے کی ڈیڈ لائن پھر آج رات ختم ہونے والی ہے۔
دوسری جانب صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا عبد الواسع نے استعفے جمع کرانے کی تصدیق کردی۔ انہوں نے بتایا کہ مجھ سمیت جے یو آئی ایف کے تمام ارکان نے اپنے استعفے مولانا فضل الرحمان کو جمع کرا دیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اے پی سی کے بعد جماعت کا اہم اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر و سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کمر میں تکلیف کے باعث کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔ دوسری جانب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بہاولپور میں موجودگی کے باعث آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ یاد رہے گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت پارٹی کے طویل مشاورتی اجلاس کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ جے یو آئی (ف) حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں کے رویے پر مشکلات کا شکار ہو گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان رہبر کمیٹی کی تجاویز اور کارکنوں کے جذبات کی کشمکش میں پھنس گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے سینیٹر طلحہ محمود اور کامران مرتضٰی کو بھی طلب کرلیا، کامران مرتضٰی نے اجلاس میں قانونی و آئینی نکات پر اجلاس میں بریفنگ دی۔
انہوں نے بتایا کہ سینیٹر طلحہ محمود نے دیگر سیاسی جماعتوں، تاجروں اور سماجی تنطیموں سے رابطوں پر بریفنگ دی۔
اجلاس میں کارکنوں میں پائے جانے والے جذبات سے متعلق بھی امور پر غور کیا گیا۔ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان کی ہدایت پر پارٹی رہنماؤں نے دھرنے کے شرکاء میں وقت گزرا تھا۔ ذرائع کے مطابق دھرنے میں پائے جانے والے کارکنوں کے جذبات پربھی صوبائی امراء نے بریفنگ دی۔ ان کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے ناکامی کے ساتھ واپس جانے کے آپشن کو مسترد کردیا اور اجلاس میں ڈی چوک جانے اور چند روز میں واپسی پر غور کیا گیا۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) سربراہ نے حکومت کو مزید 24 گھنٹے کی مہلت دینے پر بھی مشاورت کی۔ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آزادی مارچ جمعرات کو اسلام آباد پہنچا۔ ایک روز بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے دو روز کی مہلت دی تھی جو آج ختم ہورہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ میرے منہ سے تین الفاظ یعنی این آر او سننا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے حزب اختلاف کا نام لیے بغیر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں این آر او نہیں دوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ان کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے، ملک ترقی کی راہ پر نہیں آسکتا۔