پارٹی رہنماؤں کا یہ گلہ ہے کہ انہیں نواز شریف سے ملنے نہیں دیا جارہا اور واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ نواز شریف کی طبیعت انہیں کسی سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتی ہے،ذرائع کے مطابق تین دن پہلے طلال چوہدری نے آزادی مارچ میں شرکت کی اور تقریر کی جس پر فوری طور طلال چوہدری کو شہباز شریف کے قریب سمجھے جانے والے ن لیگ کے رہنما ؤں نے فون کیا اور فوری طور پر اسٹیج سے اترنے اور آزادی مارچ سے واپس آنے کا حکم دیا اور انہیں کہا گیا کہ آپ آئندہ آزادی مارچ میں شرکت نہیں کریں گے،شہباز شریف نہیں چاہتے کہ ن لیگ آزادی مارچ کا حصہ بنے لیکن پارٹی کی رائے کچھ اور ہے لیکن اس پر اپنی رائے مسلط کی جارہی ہے، سی ای سی کی میٹنگ میں 85 اراکین نے یہ رائے دی کہ ن لیگ کو مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کرنی چاہئے، اس کے بعد شہباز شریف نے سی ای سی کا اجلاس نہیں بلایا بلکہ پارٹی کے مخصوص رہنماؤں کا مشاورتی اجلاس بلایا گیا،اس اجلاس میں ان رہنماؤں کو نہیں بلایا گیا جو نواز شریف اور مریم نواز کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور ان کے بیانیے کے حامی ہیں، اب ان تمام رہنماؤں کو سائڈ لائن کردیا گیا ہے، پارٹی اجلاس میں ان رہنماؤں کی شرکت یقینی بنائی جاتی ہے جو شہباز شریف کی ہاں میں ہاں ملائیں،ن لیگ کے بعض رہنماؤں کی رائے ہے کہ اگر ن لیگ میں سے نواز شریف کو نکال دیا جائے تو پھر ن لیگ اور ق لیگ میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گ،واضح طور پر لگ رہا ہے کہ شہباز شریف کا بیانیہ پارٹی پر حاوی ہورہا ہے، پارٹی میں اس حوالے سے مزاحمت ہے لیکن مزاحمت کرنے والوں کا نواز شریف سے کوئی رابطہ نہیں ہے، شہباز شریف چاہتے ہیں کہ خاموشی اختیار کی جائے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کو منا کر ان پر بھی یہ بیانیہ حاوی کردیا گیا ہے، کیا شہباز شریف نے نواز شریف کو بھی اس بیانیہ پر منالیا ہے کیونکہ جب سے نواز شریف کی ضمانت پر رہائی ہوئی ہے اس کے بعد ان کا بیانیہ سامنے نہیں آیا ہے ‘‘۔
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) خاندانی افراد اور پارٹی رہنماؤں نے نواز شریف کو بیرون ملک اعلاج کے لیے رضامند کر لیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل ہم نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف بیرون ملک اعلاج کے لیے رضا مند ہوگئے ہیں، اہلخانہ اور پارٹی رہنماؤں نے نواز شریف کا منانےمیں اہم کردار ادا کیا ہے،
تاہم نواز شریف کب بیرون ملک روانہ ہونگے اس کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ دوسری جانب نجی ٹی وی چینل پر اپنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ زیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ’’ حکومت اور اپوزیشن نے بات چیت میں اپنے اپنے مطالبات رکھ دیئے ہیں، رہبر کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی منگل کو دوسری ملاقات ہوئی مگر ڈیڈ لاک اب تک برقرار ہے،حکومت چاہتی ہے کہ مولانا فضل الرحمان چلے جائیں، مولانا فضل الرحمان کے اطمینان سے لگ رہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ بات آگے بڑھے گی، استعفیٰ نہیں ملے گا مگر کچھ ایسا ضرور ہوگا جس سے انہیں فیس سیونگ ملے گی،ن لیگ کے اندر بھی کشمکش چل رہی ہے، پارٹی صدر شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ ن لیگ نے آزادی مارچ میں جتنا حصہ لینا تھا لے لیا ہے، دھرنے میں شرکت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اب ن لیگ کو لانگ مارچ میں بھی مزید حصہ نہیں ڈالنا چاہئے، ن لیگ آزادی مارچ کا مزید حصہ نہیں بنے گی یہ بہت بڑی خبر ہے،گزشتہ روز ن لیگ کے اجلاس میں شہباز شریف نے پارٹی کے سامنے واضح کیا کہ ن لیگ اب آزادی مارچ کا حصہ نہیں بنے گی، کوئی رہنما بھی آزادی مارچ میں شریک نہیں ہوگا،ن لیگ کے رہنما چاہتے ہیں کہ پارٹی مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کا حصہ بنے، ن لیگ میں اکثریت چاہتی ہے کہ پارٹی مولانا کے مارچ اور اس کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے اس میں بھرپور انداز میں شرکت
کرے کیونکہ مولانا فضل الرحمان اور ن لیگ کا بیانیہ ایک ہی ہے، پارٹی کے رہنما سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان وہی بات کررہے ہیں جو نواز شریف کرتے ہیں، مگر شہباز شریف چاہتے ہیں کہ ن لیگ دھرنے میں شامل نہ ہو اور انہوں نے یہ فیصلہ بھی کرلیا ہے، شہباز شریف یہ بھی چاہتے ہیں کہ پارٹی نواز شریف اور مریم نواز کو بیرون ملک جانے پر مجبور کرے، اس حوالے سے گزشتہ پارٹی میٹنگ میں فوکس تھا کہ کسی طرح نواز شریف اور مریم نواز کو باہر بھیجا جائے، شہباز شریف نے اس بات پرزور دیا کہ نواز شریف کو پارٹی کا متحدہ اور متفقہ پیغام جانا چاہئے کہ نواز شریف اور مریم نواز ملک سے باہر چلے جائیں کیونکہ نواز شریف کی صحت سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں ہے،ذرائع کے مطابق اجلاس میں ن لیگ کے ایک رہنما نے اعتراض اٹھایا کہ پارٹی قیادت کھل کر بتائے کہ آزادی مارچ میں شرکت نہ کر کے ن لیگ کو کیا فائدہ ہوگا، ن لیگ کی لیڈرشپ جیلوں میں ہے، ن لیگ کے رہنما کھل کر بول نہیں سکتے، انہیں سزائیں مل رہی ہیں تو ہم کیوں خاموش بیٹھیں گے، ہماری اور مولانا فضل الرحمان کی سوچ ایک ہے پھر ہم آزادی مارچ میں شامل کیوں نہیں ہورہے، اس پر شہباز شریف برہم ہوگئے انہوں نے غصہ میں کہا کہ کیا آپ کو نواز شریف کی صحت کی پرواہ نہیں ہے، میرے لئے نواز شریف کی صحت سب سے زیادہ اہم ہے،اس پر کچھ پارٹی رہنماؤں نے کہا کہ نواز شریف کیلئے تو ہم اسمبلی کی سیٹیں بھی قربان کرنے کیلئے تیار ہیں
مگر آزادی مارچ میں شرکت کرنے سے نواز شریف کی صحت پر کیا اثر پڑے گا، ن لیگ اگر شرکت نہیں کرے گی تو کم از کم یہ بتادیں کہ پارٹی کو اس کا کیا فائدہ ہوگا اور ابھی تک خاموش بیٹھنے کا کیا فائدہ ہوا ہے،پارٹی کے ایک رہنما نے شہباز شریف کو کہا کہ نواز شریف نے خط میں واضح ہدایت کی تھی کہ آزادی مارچ میں بھرپور انداز میں شرکت کی جائے تو اس پر شہباز شریف نے کہا کہ میاں صاحب نے جو خط میرے نام لکھا اس میں انہوں نے صرف جلسے میں شرکت کی ہدایت کی تھی جو ہم نے کرلی ہے اب کوئی آزادی مارچ کا حصہ نہیں بنے گ،اس پر پارٹی رہنما نے شہباز شریف کو کہا کہ آپ نواز شریف کے خط کی غلط تشریح کررہے ہیں، وہ خط منظرعام پر آیا ہے آپ اس سے جو اخذ کررہے ہیں ایسا نہیں ہے، آپ نے نواز شریف کی خط کی اپنی مرضی کی تشریح کرلی ہے،شہباز شریف نے میٹنگ میں ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف پر اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ میڈیا انٹرویوز میں انہوں نے اسمبلیوں سے استعفے کی بات کیوں کی اور انہیں آئندہ ایسی کوئی بات کرنے سے سختی سے منع کیا،ذرائع کے مطابق پارٹی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ نواز شریف سے ملنا چاہتے ہیں، ان سے براہ راست ہدایات لینا چاہتے ہیں، جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اس سارے معاملے میں کیا سوچ رہے ہیں، ان کی ضمانت تو ہوگئی ہے مگر ان کا براہ راست پیغام پارٹی تک نہیں پہنچ رہا، جو کچھ پہنچ رہا ہے وہ شہباز شریف کے ذریعہ پہنچ رہا ہے،