جو نماز ادا نہیں کرتے؟پہلا بچہ: (معصومیت سے) جو لوگ مرچکے ہیں.دوسرا بچہ: (ندامت سے) جنکو نماز پڑھنی نہیں آتی.تیسرے بچے نے بڑا معقول جواب دیا:سر وہ لوگ جو مسلمان نہیں ہیں.چوتھے بچے نے جواب دیا جو لوگ کافر ہوتے ہیں وہ نماز نہیں پڑھتے ہیں پانچویں بچے نے کہا جو لوگ اللہ پاک سے ڈرتے نہیں ہیں وہ نماز نہیں پڑھتے بچے تو جواب دے کر فارغ ہوگئے مگر مجھے سوچنے پر لگادیا کہ:میرا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے؟1. کیا میں مرچکا ہوں؟2. کیا مجھےنماز نہیں آتی؟کیا میں مسلمان نہیں ہوں؟کیا مجھے اپنے رب کا خوف نہیں ؟؟کیا میں کافر ہوں جو اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا؟؟؟؟حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی نماز کو حقیر جانے گا اس کو الله تعالیٰ کی طرف سے پندرہ سزائیں ملیں گی، ﭽﮭ سزائیں زندگی میں، تین مرتے وقت، تین قبر میں اور تین روز حساب میں- زندگی کی ﭽﮭ سزائیں ١)۔۔۔ الله اس کی زندگی سے رحمتیں اٹھا لے گا-(اس کی زندگی بد نصیب بنا دے گا) ٢)۔۔۔ الله اس کی دعا قبول نہیں کرے گا-٣ )۔۔۔ الله اس کے چہرے سے اچھے لوگوں کی علامات مٹا دے گا- ٤)۔۔۔ زمین پر موجود تمام مخلوقات اس سے نفرت کریں گی- تمام مخلوقات اس سے نفرت کریں گی-٥)۔۔۔ الله اسے اس کے اچھے کاموں کا صلہ نہیں دے گا-٦)۔۔۔ وہ اچھے لوگوں کی دعاؤں میں شامل نہیں ہو گا-مرتے ہوئے تین سزائیں١)۔۔۔ وہ ذلیل ہو کر مرتا ہے-٢)۔۔۔ وہ بھوکا مرتا ہے-٣)۔۔۔ وہ پیاسا مرتا ہے- (اگرچہ وہ تمام سمندروں کا پانی پی لے، پیاسا ہی رہے گا)قبر میں تین سزائیں١)۔۔۔الله اس کی قبر اتنی تنگ کردے گا جب تک اس کی پسلیاں ایک دوسرے کے اوپرنہ چڑھ جائیں-٢ )۔۔۔ الله اسے چنگاریوں والی آگ میں انڈیل دے گا-٣)۔۔۔ الله اس پر ایسا سانپ بٹھائے گا جو ٰبہادر اور دلیرٰ کہلاتا ہے، جو اسے نماز فجر چھوڑنے پر صبح سے لے کر دوپہر تک ڈسے گا،نماز ظہر چھوڑنے پر دوپہر سے لے کر عصر تک ڈسے گا، اور اسی طرح ہر نماز چھوڑنے پر اگلی نماز تک ڈسے گا، ہر ضرب کے ساﺘﻬ ستر گز زمین کے اندر دھنسے گا-روز حساب کی تین سزائیں١)۔۔۔ الله اسے منہ کے بل جہنم میں بھیج دے گا جو جرم میں شامل ہو گا-٢)۔۔۔ الله اسے غصے سے دیکھے گا جس سے اس کے چہرے کا ماس گر جائے گا-٣)۔۔۔ الله اس کا سخت حساب لے گا اور اسے جہنم میں پھینکنے کا حکم دے گا-جو اپنی نمازوں کو ادا نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔فجر: ان کے چہرے کا نور ختم ہو جاتا ہے-ظہر: ان کی آمدنی سے برکت اٹھا لی جاتی ہے-عصر: ان کے جسم کی مضبوطی اٹھا لی جاتی ہے-مغرب: انہیں اپنے بچوں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا-عشاء: ان کی نیند سے سکون ختم ہو جاتا ہے
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ ایک درویش کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی بیوی حاملہ تھی اس نے منت مانگی کہ اگر میرے گھر نرینہ اولاد ہوئی تو میں اپنے پاس موجود گوڈری کے علاوہ جو کچھ ہے سب صدقہ کردوں گا۔ وہ درویش بڑھاپے کو پہنچ چکا
تھا اور اس سے قبل اس کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ اللہ عزوجل نے اس درویش کو اولاد دنرینہ سے نواز اور اس کے ہاں ایک لڑکے ولاد ہوئی ۔ اس درویش نے اپنی منت پوری کی اور اپنی گوڈری کے علاوہ سب کچھ راہ خدا میں صدقہ کردیا۔حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں کچھ عرصہ بعد شام کے سفرسے لوٹ رہا تھا کہ میرا گزراسی درویش کے محلہ سے ہوا۔ میں نے اس درویش کے متعلق دریافت کیاتو مجھے بتایا گیا کہ وہ درویش جیل میں ہے۔ میں نے لوگوں سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ اس کے بیٹے نے شراب پی کر دنگافساد کیااور ایک شخص کو قتل کرکے خود بھاگ گیا ۔ شہر کے کوتوال نے اس درویش کو گرفتار کرلیا اور اس کے گلے میں طوق اور پاؤں میں بھاری بیڑیاں ڈال کراسے قید کردیا۔ حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اس درویش کے حالات کے متعلق سنا تو کہا اس مصیبت کو اس نے اللہ عزوجلسے منت مانگ کر لیا۔ پس اے ہوشیار ! اگر حاملہ عورت عقل مندوں کے مطابق سانپ پیداکرلے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ نالائق بچہ پیداکرے۔مقصود بیان : حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایسے والدین جو اللہ عزوجل سے دعائیں اور منتیں مانگ کراولادلیتے ہیں اگر وہ اولاد بڑی ہونے کے بعد ان کے لئے ذلت کا باعث بنے اور انہیں زمانے میں رسوا کرے تو
ایسی اولاد کا انجام نہایت ہی افسوسناک ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ نے والدین کے مقام ومرتبہ سے آگاہ کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بے شمار مقامت پر نصیحتیں کیں جوروایات میں بیان کی گئی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سخت بیمار ہوگئے۔ شدتِ ضعف کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے سے بھی معذور ہوگئے ۔ حضور پاک ﷺ عیادت کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے۔ بیمار صحابی نے جب آپ ﷺ کو دیکھا تو خوشی سے نئی زندگی محسوس کی اور ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی مردہ اچانک زندہ ہوگیا ہو۔ ” زہے نصیب اس بیماری نے تو مجھے خوش نصیب کردیا۔ جس کی بدولت میرے غریب خانے کو شاہِ دوعالم ﷺ کے پائے اقدس چومنے کی سعادت حاصل ہوئی“اس صحابی نے کہا” اے میری بیماری اور بخار اور رنج وغم اور اے درد اور بیداری شب تجھے مبارک ہو بسبب تمہارے اس وقت نبی پاک ﷺ میری عیادت کو میرے پاس تشریف لائے ۔“ جب آپ ﷺ ان کی عیادت سے فارغ ہوئے۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا” تمہیں کچھ یاد ہے کہ تم نے حالتِ صحت میں کوئی نامناسب دعا مانگی ہو۔“ انہوں نے کہا ”مجھے کوئی یاد نہیں آتا ، کہ کی دعا کی تھی۔“ تھوڑے ہی وقفے کے بعد حضور ﷺ کی برکت سے انکو وہ دعا یاد آگئی ۔صحابی نے عرض کیا کہ ”میں نے اپنے اعمال کی کوتاہیوں اور خطاؤں کے پیشِ نظر یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ تعالیٰ وہ عذاب جو آخرت
میں آپ دیں گئے وہ مجھے اس عالمِ دنیا میں دے دے تاکہ عالمِ آخرت کے عذاب سے فارغ ہوجاؤں ۔ یہ دعا میں نے بار بار مانگی۔ یہاں تک کہ میں بیمار ہوگیا اور یہ نوبت آگئی کہ مجھ کو ایسی شدید بیماری نے گھیر لیا کہ میری جان اس تکلیف سے بے آرام ہوگئی۔ حالتِ صحت میں میرے جو معمولات تھے،عبادت وذکر الہٰی اور اور ادووظائف کرنے سے عاجر اور مجبور ہوگیا۔ برے بھلے اپنے بیگانے سب فراموش ہوگئے اب اگر آپ ﷺ کا روئے اقدس نہ دیکھتا تو بس میرا کام تمام ہوچکا تھا۔ آپ ﷺ کے لطف وکرم اور غم خواری نے مجھ کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔ “ اس مضمونِ دُعا کو رسول اللہ ﷺ نے سن کر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور منع فرمایا کہ ”آئندہ ایسی نامناسب دعا مت کرنا یہ آداب بندگی کے خلاف ہے، کہ انسان اپنے مولیٰ سے بلا وعذاب طلب کرے۔ انسان تو ایک کمزور چیونٹی کی مانند ہے اس میں یہ طاقت کہا کہ آزمائش کا اتنا پہاڑ اٹھا سکے۔ “ صحابی نے غرض کی”اے شاہِ دوعالم ﷺ میری ہزار بار توبہ کہ آئندہ کبھی ایسی بات زبان پر لاؤ۔ حضور ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان اب آئندہ کے لئے میری رہنمائی فرمائیں۔“آپ ﷺ نے اس کو نصیحت فرمائی!ترجمہ:(اے اللہ دنیا میں بھی ہمیں بھلائیاں عطا فرما اور آخرت میں بھی ہم کو بھلائیاں عطا فرما۔ خدا تمہاری مصیبت کے کانٹوں کا گلشنِ راحت میں تبدیل کردے۔ آمین!)حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے اخلاق بیان فرماتے ہوئے روایت فرماتے ہیں:کریم آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات میں اور حسن جمال میں بہت عظیم تھے اور دیکھنے والوں کے لیے معظم تھے،اپکا چہرہ مبارک چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا، آپکا قد مبارک میانہ تھا اور میانہ سے کچھ نکلا ہوا تھا اور شان یہ تھی جب چلتے تھے تو بڑے قد والوں سے بھی بڑا لگتا تھا، جب بال جوڑتے تو کنگھا کیے بغیر مانگ نکلآتی، پیشانی مبارک سے چمک نکلتی تھی، رخسار مبارک نہایت خوبصورت تھے، دندان مبارک باریک تھے اور موتیوں کی طرح چمک دار تھے، اگر گردن نظر آتی تو چاندی کی طرح چمکتی تھی،جسم فٹ تھا مطلب پتلے بھی نہ تھے اور موٹے بھی نہ تھے، اپکا جسم مبارک روشن تھا، بازو مبارک پر بال زیادہ نہ تھے،انگلیاں لمبی تھیں، جب چلتے تھے قدم مبارک ایسے اٹھتے تو ایسے لگتا تھا اونچائی سے اتر رہے ہیں، جب کسی سے ملتے تو جس طرف وہ شخص ہوتا اس کی طرف مکمل مڑ جاتے تھے ڈاس کو دیکھتے تو سیدھا ہو کر دیکھتے تھے،جب چلتے تو صحابہ کو آگے چلنے کی ترغیب فرماتے، جس سے بھی ملتے سلام کرنے میں ابتدا فرماتے، آپکا کلام مختصر اور آسانی سے سمجھ آنے والا ہوتا، آپکی طبیعت میں اصلا نرمی تھی، مزاج میں کوئی سختی نہ تھی، اللہ کی نعمت یا کسی کی تھوڑی سی بھلائی پر تعریف فرماتے، حق کی مخالفت اور باطل کو برداشت نہ کرتے، اپنے نفس اور اپنی جان کے لیے کھبی غصہ نہ فرماتے،اور اپنی
ذات کے لیے کبھی انتقام نہ لیتے، گفتگو میں ہاتھوں سے اشارہ فرماتے، خوشی کے عالم میں چہرہ نیچے فرماتے اور مسکراتےے چینی بھی ایک بڑا روگ بن چکی ہے۔کسی کو رزق میں فراوانی کے باوجود بے چینی ہے اور تسکین قلب نہیں.کوئی بچوں کے مستقبل سے خوف کھاتا ہے اور بے چین رہتا ہے.دیکھا جائے تو بے چینی کامطلب ہے کہ انسان کو تسکین قلب میسر نہیں.تسکین قلب ایک نعمت اور رحمت ہے لیکن جب یہ ہی انسان کو میسر نہ آئے تو ایسے جینے میں کوئی لطف نہیں رہتا.تسکین قلب کے لئے اوربے چینی کو ختم کرنے کے لئے رسالت مآب حضور اکرم ﷺ نے ایک دعا تعلیمفرمائیہے جس کے پڑھتے ہی رحمت کانزول شروع ہوجاتا ہے . یہ دعا بہت مجرب ہے جو بھی پریشانی ہو اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کے ساتھ پڑھیں ان شاءاللہ فائدہ ہوگا۔اللهم رحمتك ارجو فلا تكلني إلى نفسي طرفة عين ، وأصلح لي شأني كله ، لا إله إلا أنت دعا ایسے موقع کے لئے تیر بہدف کا کام کرتی ہے جب کوئی کام رکا ہوا ہو یا سخت سے سخت پریشانی لاحق ہو . بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نماز حاجت پڑھیں اور سلا م کے بعد ۱۱ بار یہی دعا پڑھیں ان شاءاللہ کام ہو جائے گا اول و آخر درود ابراہیمی ضرور پڑھیں .نیز یہ دعا اگر کوئی ہر نماز کے بعد ایک بار پڑھیں تو اس کا کوئی کام رکا نہیں رہے گا۔استاد نے کلاس میں بچوں سے سوال کیایہ بتاؤ کہ وہ کون لوگ ہیں