خلافت عباسیہ کے زوال کے دور میں وسط ایشیا اور ایران میں خوارزم خاندان کی حکمرانی تھی ۔سلجوق خاندان کی شکست ر یخت کے بعد خوارزم کی حکومت نے زوال پذیر اسلامی اقدار کو سہارا دیا تھا لیکن ایک انا پرست سازشی ملکہ کی وجہ سے جب قہر ارضی بن کر
چنگیز خان نے سلطنت خوارزم کا رخ کیاتو اسے شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد اس نے وسیع العریض اسلامی ریاست کو برباد کرنے کے لئے سیاسی جال پھیلا کر بدگمانیوں کی ایسی فصل بوئی کہ ریاست خوارزم زوال پذیر ہوگئی ۔چنگیز خان نے اس مقصد کے لئے علاوالدین خوارزم شاہ کی والدہ اور سلطان تکش کی ملکہ ترکان خاتون کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس عظیم الشان سلطنت کا سارا غرور اپنے گھوڑوں کے قدموں میں روند ڈالا مگر بعد ازاں اس نے ملکہ ترکان خاتون کو بھی عبرت کا ایسا نشان بنایا کہ تاریخ اس پرآج بھی خون کے آنسو روتی ہے ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ملکہ ترکان خاتون کو بالکل وہی حیثیت حاصل تھی جیسی ہندوستان میں ملکہ نورجہاں کو تھی تاہم ملکہ ترکان خاتون کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس کا بھی باقاعدہ تخت و دربار لگتا تھا اور وہ امور سلطنت کے فیصلے سلطان کے ہوتے ہوئے بھی کیا کرتی تھی۔ سلطان تکش نے خوارزم کی سلطنت میں اضافہ اپنی ملکہ کی ذہانت کے بل بوتے پر کیا تھا ملکہ جنگجو قبیلے قبچاق کے سردار کی بیٹی تھی جس کی وجہ سے ترکان خاتون کو بھی بطور ملکہ سلطنت میں بے پناہ طاقت اور اثروسوخ حاصل ہوگیا۔ سلطان تکش کی وفات کے بعد جب سلطان علاوالدین خوارزم شاہ مسندپر بیٹھا تو ملکہ ترکان خاتون کا عمل دخل سلطنت میں اور بڑھ گیا۔ایک طرح سے اب دو متوازی حکومتیں چلنے لگی تھیں ۔ علاوالدین خوارزم شاہ جب بھی اپنی والدہ کا اثرو سورخ
کم کرنے کی کوشش کرتا قبچاقی ترک اسکی راہ میں آجاتے ۔اس مداخلت کی وجہ سے ہی چنگیز خان نے خوارزم کا رخ کیا اور اسکی وجہ بھی یہی رعونت اور نسلی طاقت بنی تھی ۔ ملکہ کے قبیلے قیچاقی نے ایک بار چنگیز خان کے قافلے کو لوٹ لیا تو چنگیز خان نے خوارزم شاہ سے اسکی شکایت کی مگر ملکہ ترکان خاتون نے اپنے قبیلے کی حمایت کرکے اس شکایت کاازالہ نہ ہونے دیا جس کے بعد چنگیز خان اپنے قافلے کا بدلہ لینے خوارزم کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہوگیا ۔مورخ لکھتے ہیں کہ ترکان خاتون کے دباوپر ہی علاوالدین خوارزم شاہ نے اپنے بڑے بیٹے جلال الدین کے بجائے قطب الدین کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ کیونکہ قطب الدین کی ماں کا تعلق قبچاقی قبیلے سے تھا اور وہ ترکان خاتون کی عزیز بھی تھی جبکہ جلال الدین کی والدہ ہندوستانی نژا د تھی۔ اسی وجہ سے ملکہ ترکان خاتون کا تمام عمر جلال الدین سے اختلاف رہا اور وہ ہر وقت جلال الدین کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی۔چنگیز خان کی یلغار کے دوران ایک وقت ایسا آیا کہ تمام اختلافات بھلا کر قبچاقی جنگجو علاوالدین خوارزم شاہ کے جھنڈے تلے تاتاریوں سے لڑنے لگے۔ مگر چنگیز خان نے ایک سازش کے ذریعے اس تعلق کو دوری میں تبدیل کردیا۔ چنگیز خان نے ملکہ ترکان خاتون اور چنگیز خان کے درمیان ایک جعلی خط تیار کروا کر علاو الدین شاہ تک پہنچا دیا۔ وہ اس خط کو اصل سمجھ بیٹھا اور ترک قبچاقی قبیلے پر سخت خفاہوا۔ قبچاقی سرداروں نے غصے میں آکر خوارزم شاہ کے خیمے پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا مگرخوارزم شاہ بچ گیا۔اس واقعے کے بعد قبچاقی سردار باقاعدہ طور پر خوارزم شاہ سے باغی ہوکر چنگیز خان سے جا ملے۔یہاں سے ملکہ ترکان خاتون کی بربادی کا سورج تیزی سے غروب ہونے لگا ۔ ملکہ ترکان خاتون سقوط اور گنج کے وقت دارالحکومت چھوڑتے وقت ترکان خاتون نے شقاوت اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیس کے قریب شاہی خاندان کے افراد کہ جن کے بارے میں اسے شبہ تھا کہ دارالحکومت خالی دیکھ کر تخت پر قبضہ کرسکتے ہیں انہیں قتل کروادیا تھا۔ اور گنج سے فرار ہو کر شاہی خاندان کی مستورات کے ساتھ ترکان خاتون نے ایلان کے قلعے میں پناہ لی۔ یہاں وزیر اعظم نظام الملک محمد بن صالح بھی ترکان خاتون کے ہمراہ تھا۔ شاہی خاندان کی موجودگی کا علم ہوتے ہی تاتاریوں نے ایلان کا محاصرہ کرلیا۔ ایلان کا قلعہ خوارزم کے مضبوط قلعوں میں شمار کیا جاتا تھا اور چار ماہ تک تاتاری اس کی فصیلوں کا محاصرہ کئے رہے ۔ چار ماہ کے سخت محاصرے اور مکمل ناکہ بندی کے بعد قلعے میں راشن ختم ہوگیا۔ حصورین بھوک پیاس کی شدت سے بیتاب ہوگئے اورآخر کار تھک ہار کر قلعے سے باہر نکل آئے۔ وزیر محمد بن صالح کو تاتاریوں نے مستقبل کی مشاورت کے لیے قید کرلیا اور شاہی خاندان کا قتل عام شروع کردیا۔ ملکہ ترکان خاتون کو قید کرکے چنگیز خان کے پاس بھیج دیا گیا۔ چنگیز خان کے دربار میں ملکہ ترکان خاتون کو ذلت اور رسوائی کے لاتعداد مناظر کا سامنا کرنا پڑا۔ چنگیز خان ملکہ ترکان خاتون کو زنجیریں ڈالے فخریہ انداز میں ساتھ لیے گھومتا تھا اور تاتاریوں کی سالانہ قرولتائی میں بھی ملکہ ترکان خاتون کو قیدی کے طور پر فاتحانہ انداز میں لے کر جاتا۔ ملکہ کو بھوک مٹانے کے لیے تاتاریوں کے لنگر سے قطار لگا کر کھانا لینا پڑتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حالت میں بھی اس کی نخوت برقرار تھی۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہایک خوارزمی جو ملکہ کا خدمت گار تھا اور دوران قید بھی ملکہ کے ساتھ تھا اس نے ایک دن فرارکا منصوبہ بنایا اور ملکہ سے کہا کہ فرار ہو کر نکل چلتے ہیں اور قریب ہی جلال الدین تاتاریوں سے نبرد آزما ہے اس کی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہے مگر ملکہ ترکان خاتون نے جواب دیا کہ جلال الدین کی پناہ میں جانے سے بہتر ہے کہ چنگیز خان کی قید میں رہ لیا جائے۔ آخر کار اس قید میں بیچارگی کی حالت میں ملکہ ترکان خاتون کا انتقال ہوگیا۔ مگر اسکے ساتھ خوارزم جیسی عظیم سلطنت کا سورج بھی غروب ہونا شروع ہوگیا کیونکہ اسکی انا کی وجہ سے چنگیز خان کو وسط ایشیا سے عرب دنیا،بغداد ،تک کا جو آسان راستہ مل گیا تھا ،اس نے اسلامی دنیا کو اندھیروں میں ڈبو کررکھ دیا