لاہور (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کی خواہشات اور جذبات کے برعکس ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو بیرون ملک علاج کی جو اجازت عنایت فرمائی اس پر لکھنے کی بھی مجھے بہت جلدی ہے۔ پر اس سے پہلے ایک اور اہم موضوع کو نمٹانا ہے۔ گزشتہ کالم میں میں ان لوگوں کی سوچ اور
نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ رویے پر حیرت کا اظہار کر رہا تھا جنہوں نے کرتارپور کھولنے کی تقریب میں وزیراعظم عمران خان پر تنقید کی کہ انہوں نے اس موقع پر بابا گورونانک کے سکھوں کے مذہب کے احترام میں سرپر رومال کیوں رکھا تھا۔ یا وہ اندازکیوں اختیار کیا تھا جو سکھ اپنے مذہب کے احترام میں کرتے ہیں؟…. مجھے اس پر دو سال قبل کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کے ایک علاقے اے جیکس کے کمیونٹی سنٹر کی مسجد میں ادا کی گئی نماز عید یاد آ گئی۔ یہ شاید میری کسی عید کی پہلی نماز تھی جو میں بیرون ملک ادا کر رہا تھا۔ میری اگلی صف میں دو گورے بھی نماز ادا کر رہے تھے۔ میرا خیال تھا یہ اسلام قبول کر چکے ہیں۔ نماز سے فراغت کے بعد میں نے اپنے ہم زلف شہاب جی مصطفی سے پوچھا ”یہ کون ہیں؟“ انہوں نے بتایا ان میں سے ایک شہر کا موجودہ میئر اور دوسرا سابقہ میئر ہے۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ان کے ساتھ صرف عیدکی نماز ادا نہیں کرتے، بلکہ رمضان المبارک میں پورے روزے بھی رکھتے ہیں۔…. اپنے ہم زلف کی یہ بات سن کر میرے اندر کا ایک روایتی پاکستانی مولوی جاگ گیا۔ مجھے سخت غصہ آیا۔ میں نے سوچا! یہ گورے ہماری نمازیں پڑھنے والے اور ہمارے روزے رکھنے والے ہوتے کون ہیں؟ میں نے اپنے غصہ پر بڑی مشکل سے قابو پایا اور یہ فیصلہ کیا آئندہ کسی ایسے گورے ملک کی کسی ایسی مسجد میں نماز ادا نہیں کروں گا
جہاں کچھ گورے (کافر) بھی نماز ادا کرتے ہوں…. کچھ گورے ہم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے صرف نمازیں ادا نہیں کرتے ہماری دیگر مذہبی رسومات میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ بلکہ علامتی طور پر وہ ان مذہبی رسومات کا باقاعدہ حصہ بن جاتے ہیں۔ اے جیکس میں عید کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے ہم باہر نکلے میں نے دیکھا بے شمار گورے گوریاں اپنے بچوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پلے کارڈز اٹھائے کھڑے ہیں جن پر
”Free Hug“
لکھا ہوا ہے۔ مسجد سے باہر نکلنے والے مسلمانوں سے وہ اس قدر جذباتی انداز میں گلے مل رہے تھے جیسے عید کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم مسلمان ملتے ہیں۔ میرے لئے یہ بڑے نئے اور دلچسپ مناظر تھے۔ گوری دنیا میں رہنے والے ہمارے کچھ ”مولوی صاحبان“ گوروں سے جپھی ڈالنا پسند نہیں کرتے البتہ گوریوں کے معاملے میں ان کے جذبات ان کے مذہبی نظریات سے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ بعض گوروں کے معاملے میں بھی ان کے مذہبی نظریات ذرا مختلف ہوتے ہیں مگر اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے گورے کی عمر کتنی ہے؟ پچھلے دنوں برطانیہ کا شہزادہ اپنی شہزادی کے ساتھ پاکستان آیا ہوا تھا۔ شہزادی نے اپنے پورے دورے میں پاکستانی لباس پہنے رکھا۔ ہمارے کئی مقدس مقامات کے وزٹ کے دوران اس کے سر پر باقاعدہ دوپٹہ یا چادر بھی ہوتی تھی۔ بادشاہی مسجد کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے اسے ذرا سا یہ احساس ہوا اس کے بیٹھنے کا انداز مسجد کے احترام کے مطابق نہیں وہ فوراً سنبھل گئی۔….
کچھ گورے دیگر مذاہب کا کتنا احترام کرتے ہیں اور اس حوالے سے کس حد تک چلے جاتے ہیں؟ ایک اور واقعہ میں آپ کو سناتا ہوں۔ آپ شاید اس پر یقین نہیں کریں گے۔ میں نے بھی پہلے نہیں کیا تھا۔ چند سال قبل میں امریکہ سن فرانسکو گیا۔ وہاں یونین سٹی کے نام سے ایک شہر ہے۔ وہاں کی ایک خاتون میئر نے منتخب ہونے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ ایک سروے کروایا اس کے شہر میں کسی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی کتنی تعداد مقیم ہے؟۔ کیا ان کی عبادت گاہیںاُن کی تعداد کے مطابق ہیں؟۔ پتہ چلا وہاں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ وہاں اُن کی عبادت گاہ (مسجد) صرف ایک ہے۔ وہ بھی بہت فاصلے پر ہے۔ اس کے مقابلے میں کرسچین کی تعداد کم ہے جبکہ چرچ زیادہ ہیں۔ انہوں نے دو چرچوں کی تعمیر میں ردوبدل کر کے انہیں مسجدوں میں تبدیل کر دیا۔ اس فیصلے پر اپنی کمیونٹی کی جانب سے انہیں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ ڈٹی رہیں۔ ہم ایسے کسی عمل کا تصور بھی کر سکتے ہیں؟ پچھلے دنوں جب خان صاحب نے یو این میں کشمیر خصوصاً توہین رسالت کے حوالے سے خوبصورت جذبات کا اظہار کیا پاکستانیوں نے اس عمل کو ان کی بڑی ”جرا¿ت مندی“ قرار دیا۔ محض اس حوالے سے یہ واقعی ”جرا¿ت مندی“ تھی ماضی میں ہمارے حکمرانوں کو ایسی کھری کھری باتیں کرنا کم ہی نصیب ہوتا تھا۔ مگر اس سے بڑی حقیقت یہ ہے بے شمار ممالک خصوصاً گوری دنیا غیرمذاہب کے لوگوں کو اس صورت میں اپنے جذبات کے اظہار کا پورا موقع فراہم کرتی ہے کہ اس سے دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔….
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں یہ ازراہ مذاق عرض کیا تھا کرتاپور راہداری کھولنے کی تقریب میں وزیراعظم خان صاحب سکھوں کی روایتی پگڑی پہن لیتے اس سے کم از کم ہم اس یقین میں لازمی مبتلا ہو جاتے وہ جو فیصلہ کرتے ہیں اپنی طرف سے ٹھیک ہی کرتے ہیں…. اگلے روز میں نے انہیں یہ مشورہ دیا ”جس دلچسپی اور لگن سے انہوں نے کرتار پور راہداری کا منصوبہ مکمل کروایا اس دلچسپی اور لگن سے وہ کرتارپور کے کہیں آس پاس یا پاکستان کے کسی بھی مقام پر ایک خوبصورت مسجد تعمیر کروائیں جس کا نام ”بابری مسجد“ رکھیں۔ اس سے ہندوستان کو بڑی مرچیں لگیں گی۔ ہو سکے تو یہ مسجد ”بنی گالہ“ میں تعمیر کروائیں، بلکہ ادا کی جانے والی نمازوں کی امامت بھی خود کریں۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو ”بادشاہی مسجد“ کا نام تبدیل کر کے ”بابری مسجد“ رکھ دیں۔ یہ بھی نہ کر سکیں تو ”بادشاہی مسجد“کی حالت ہی ٹھیک کر دیں کہ لاہور میں سیاحوں کی دلچسپی کا حامل یہ تاریخی مقام ہر لحاظ سے برباد ہو چکا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے اس مسجد کی نگرانی محکمہ اوقاف پنجاب کے بجائے اس علاقے کے اردگرد رہنے والے لوگوں کے پاس ہے۔…. کرتارپور راہداری کھولنے کی تقریب میں بھارتی اداکار سنی دیول بھی شریک ہوئے۔ کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم کا ”مذمتی ذکر“ وہ سرجھکائے سنتے رہے۔ ایک بھارتی فلم میں انہوں نے ڈائیلاگ بولا تھا ”دودھ مانگو گے کھیر دیں گے کشمیر مانگو گے چیر دیں گے“ …. یوں محسوس ہو رہا تھا وہ اس ڈائیلاگ کی خفت مٹانے کے لئے آئے ہیں۔ تقریب کے مقام پر پہچانے والی بس میں وہ فردوس عاشق اعوان کے بالکل پیچھے کھڑے تھے اور فردوس عاشق اعوان بہت خوش دکھائی دے رہی تھیں۔ بعد میں ہم نے دیکھا سٹیج پر وہ صرف وزیراعظم عمران خان کے پسندیدہ وزیراعلیٰ پنجاب بزدار کے بالکل ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ باربار وزیراعلیٰ بزردار کو بڑی عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہے تھے، جیسے ہماری طرح وہ بھی یہی سوچ رہے ہوں وزیراعظم پاکستان نے کس نمونے کو وزیراعلیٰ بنایا ہوا ہے؟۔ میری اطلاع کے مطابق پنجاب میں ان کی وزارت اعلیٰ کے دن اب تھوڑے رہ گئے ہیں۔…. اچھا ہے فارغ ہونے کے بعد وہ پوری توجہ سے غوروفکر کر سکیں گے ”اگلا الیکشن انہیں کس جماعت کی طرف سے لڑنا ہے؟“