تہران (ویب ڈیسک) چند ماہ قبل سعودی عرب میں آرامکو آئل فیلڈ پر حملے ہوئے تھے جس کے بعد چند روز تک سعودی عرب کی آئل فیلڈ بند رہی، اس دوران دیکھا گیا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ چکی تھیں، اس دوران سعودی عرب کے اعلیٰ حکام نے بھی کہا
کہ ان حملوں میں ایران ملوث ہے، امریکا بھی اسی بات پر متفق تھا کہ یہ حملے ایران کی طرف سے کیے گئے لیکن تہران ان باتوں کی تردید کرتے رہے۔ تاہم اب غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے چشم کشا انکشافات ہوئے ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’رائٹرز‘‘ کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی آئل فیلڈ پر 18 ڈرونز اور تین میزائلوں کے حملے سے 4 ماہ پہلے اعلیٰ ایرانی سکیورٹی عہدیدار تہران کے قلعہ بند کمپاؤنڈ میں جمع ہوئے تھے کا کہنا تھا کہ ’اب تلواریں نکالنے کا وقت آ چکا‘ ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق میٹنگ میں پاسداران انقلاب کے اعلیٰ کمانڈروں کے ساتھ ساتھ فوج کے ان شعبوں کے عہدیدار بھی شامل تھے جو میزائل سازی اور خفیہ آپریشنز کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ مئی میں ہونے والے خفیہ اجلاس کا مرکزی موضوع تھا کہ امریکا کو کس طرح نشانہ بنایا جائے؟ کیونکہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی تھی۔ خبر رساں ادارے کے مطابق میجر جنرل حسین سلامی اپنے اعلیٰ کمانڈروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میٹنگ سے آگاہ 4 افراد نے بتایا کہ کمانڈر کا کہنا تھا کہ اب تلواریں نکالنے کا وقت آ چکا ہے تاکہ امریکا کو سبق سکھایا جا سکے۔ میٹنگ میں امریکی فوجی اڈے سمیت ہائی ویلیو ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی۔ اسکے بعد فیصلہ ہوا کہ کوئی بھی کارروائی امریکا کے ساتھ براہ راست تصادم کا باعث بنے گی۔ ایک کمانڈر نے تجویز دی کہ امریکا کی بجائے
اتحادی کی آئل فیلڈ کو نشانہ بنایا جائے۔ میٹنگ میں موجود چار عہدیداروں نے حمایت کی۔ میٹنگ کے حالات سے واقف 3 اہلکاروں نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی ہے۔ تینوں اہلکاروں کا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی نے آپریشن کی بذات خود منظوری دی تھی لیکن ساتھ ہی شرائط بھی رکھی تھیں۔ وہ یہ تھیں کہ اس آپریشن میں نہ تو کسی عام شہری اور نہ ہی کسی امریکی کو ہلاک کیا جائے گا۔رائٹرز نے خصوصی رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں پاسداران انقلاب سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی بھی جواب دینے سے انکار کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایرانی مشن کے ترجمان علی رضا میر یوسفی نے اسے بالکل مسترد کر دیا ہے کہ مئی میں ایسی کوئی میٹنگز ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی آئل فیلڈ پر ہونے والے حملے میں ایران کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس وقت ان حملوں کی ذمہ داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی تھی۔ لیکن امریکا اور سعودی عرب نے اسے مسترد کر دیا تھا کیوں کہ ان حملوں کا انداز انتہائی ماہرانہ تھا اور یہ صلاحیت حوثی باغیوں کے پاس موجود نہیں ہے۔ رائٹرز کے مطابق ایرانی فیصلے سے متعلق معلومات رکھنے والے 4 عہدیداروں کے مطابق سعودی آئل فیلڈز کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کئی ماہ تک جاری رہی۔ ایرانی عہدیداروں کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ اس حوالے سے مجموعی طور پر پانچ میٹنگز ہوئیں اور پھر ستمبر کے آغاز میں اجازت دی گئی۔ یہ تمام میٹنگز خصوصی کمپاؤنڈز میں ہوئیں۔ ایک میٹنگ میں سپریم لیڈر خمینی بھی شریک ہوئے، جو ان کی رہائش گاہ کے کمپاؤنڈ میں ہوئی تھی۔ ان حملوں کی تفتیش سے آگاہ مشرق وسطیٰ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس حملے کے لیے اہواز ایئربیس استعمال کی گئی۔ تین امریکی اہلکاروں اور دو دیگر ماہرین نے بھی رائٹرز کو یہی بتایا ہے کہ اس مقصد کے لیے اہواز ایئربیس استعمال ہوئی۔ ڈرون اور میزائل ایران سے براہ راست سعودی عرب نہیں پہنچے تھے بلکہ ان کے لیے مختلف روٹ استعمال کیے گئے۔ مغربی ممالک کے خفیہ ذرائع کے مطابق ان میں سے کچھ عراق اور کچھ براستہ کویت سعودی عرب پہنچے اور ایسی صلاحیت حوثیوں کے پاس نہیں ہے۔