لاہور (ویب ڈیسک) رنگ ہو یا عرب و عجم، وادیٔ سندھ کی تہذیب و روایت ان سے قطعاً مختلف ہے، دنیا بھر میں طاقت، بہادری اور عظمتِ جوانی سے عبارت ہے، جوان بوڑھوں سے کہیں زیادہ بہادری سے لڑتے اور دنیا بھر میں فتوحات کے جھنڈے گاڑتے رہے ہیں۔ دنیا کی ریت یہی ہے کہ
نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جوان چیلنج قبول کرتے ہیں جبکہ بوڑھے مصلحت پسند ہو جاتے ہیں مگر وادیٔ سندھ یا ہڑپہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس مٹی کی تاثیر کچھ ایسی ہے کہ ہمارے سارے بڑے ہیرو بوڑھے ہیں۔نوجوان سکندر یونانی کا مقابلہ کرنے والا پورس بوڑھا تھا، سکھوں کے خلاف مزاحمت کرنے والا ملتان کا نواب مظفر خان 80 سال کا تھا، احمد خان کھرل نے انگریزوں کے خلاف عَلمِ بغاوت اس وقت بلند کیا جب وہ بوڑھا تھا اور تو اور سکھوں کی عظمتِ رفتہ کی تصویر مہاراجہ رنجیت سنگھ کو تو کہا ہی بوڑھا شیر جاتا تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس خطے میں، جو اب پاکستان کہلاتا ہے، ایسی کیا خاص بات ہے کہ یہاں کے بوڑھے زیادہ اولوالعزم، زیادہ جرأت مند اور جان تک کا نذرانہ پیش کرنے والے ہیں جبکہ اس عمر کے لوگ مصلحت پسند ہی ہوتے ہیں۔ہر خطے کا مزاج اس کے ماضی کی تاریخ و واقعات سے تشکیل پاتا ہے۔ وادیٔ سندھ کے آثارِ قدیمہ سے جو سب سے بڑا انسانی کردار دریافت ہوا ہے وہ صدیوں پرانا پروہت یا عام زبان کا ’سائیں‘ ہے، جو اپنی بستی کے لوگوں کی روحانی بالیدگی پر مامور تھا، ترشی ہوئی داڑھی اور پھولوں کے نقش و نگار والا صافہ رکھے یہ پروہت آج بھی کہیں نہ کہیں ہمارے مزاج میں دخیل ہے، موہن جودڑو اور ہڑپہ سے کوئی جنگی ہتھیار نہیں ملا گویا یہ خطہ مجموعی طور پر امن کا گہوارہ تھا۔ سکندر اور پورس کی جنگ اور جیلیانوالہ کی سکھ انگریز جنگ کے علاوہ کشت و خون سے بھری جنگیں بہت کم ہوئیں البتہ غیر ملکی حملہ آور گاہے گاہے اس خطے کو تخت و تاراج کرتے رہے، جواباً یہاں کا عملی ردِعمل کم البتہ ذہنی ردعمل مزاحمت ہی کا رہا، بہادری کے جوہر دکھانے کے بجائے مزاحمتی شاعری اور مزاحمتی مزاجِ ادب پروان چڑھا۔پورس اور سکندر یونانی کی جنگ میں کون جیتا کون ہارا، اس پر دونوں کی آراء کے حق اور ردّ میں دلائل موجود ہیں، البتہ ایک بات طے ہے کہ سکندر کے حملے کے بعد بھی راجہ پورس کی حکمرانی جاری رہی۔ یہ ثبوت بھی موجود ہے کہ سکندر کے سفر و جنگ کا ساتھی گھوڑا بیوفالس محاذِ جنگ کے قریب ہی دریائے چناب کے کنارے دم توڑ گیا، اب بھی وہ پھالیہ (منڈی بہاؤ الدین) کے ایک ٹیلے میں دفن ہے جس کی نشاندہی برطانوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے کی تھی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنگ کی حرارت نے سکندر اور اس کے گھوڑے کو چھوا ضرور ہوگا۔صدیوں پرانا یہی پروہت یا سائیں ہمیں بدھ مت کے دور میں گیروے رنگ کی چادر لپیٹے وادیٔ سندھ میں گھومتا نظر آتا ہے، موہن جو دڑو ہو یا کٹاس راج، ہر جگہ آثارِ قدیمہ کے ساتھ ساتھ بدھ مت کے مذہبی مقامات نظر آتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کا موجودہ علاقہ بدھ مت کا بہت بڑا مرکز تھا، یہاں ہی سے بدھ مت کے ایک مکتبِ فکر ’جوگی‘ کا آغاز ہوا، قصبۂ لاہور پختونخوا سے جانے والے ایک مبلغ نے جنوبی کوریا اور جاپان تک میں بدھ مت کو پھیلایا، اس سلسلے کو کوریا میں اب بھی جوگی کہا جاتا ہے۔ نیا دور آیا تو برصغیر میں صوفی روایت آگے بڑھی، وہی خاموش مزاحمت، انسان کیلئے محبت، جنگ سے نفرت اور جوگیوں جیسی خاکساری، اس خطے کے آئیڈیل کا مزاج نہ بدلا ہے نہ جلدی بدلنے کی توقع ہے، مزاحمتی شاعری اور صوفی کلام کے ایک حصے میں ملامتی رنگ نظر آتا ہے۔ ملامتی بھی جوگی کی طرح معاشرے کے مروجہ اصولوں اور ریت روایتوں سے انحراف کرتا ہے، بلّھے شاہ شوخ سرخ اور سبز چوغے پہنے رقص کرتے تھے۔ شاہ حسین، مادھو کے ساتھ گھومتے پھرتے اعلانِ بغاوت کرتے تھے تاہم اس ملامت مزاحمت، جوگ اور سنیاس میں قدرِ مشترک امن، محبت اور انسان دوستی ہی ہے۔آج کی بات کی جائے تو سیاست کا سب سے پاپولر رجحان ملامت ہی ہے۔ ماضی کی ملامت اپنے اوپر ہوتی تھی، آج کی ملامت دوسروں پر ہے۔ نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست کو پرانی پرم پرا اور صدیوں کی روایت میں دیکھا جائے تو نفسیاتی طور پر عوام اسی صدیوں پرانے مزاج کے تحت چاہتے ہیں کہ ان کے لیڈر دولت سے محبت نہ کریں، انسانوں سے محبت کریں، محبت اور امن سے رہیں، مادی دنیا سے ہٹ کر وہ روایات اپنائیں جو اس خطے کیلئے ہمیشہ سے آئیڈیل رہی ہیں، جب وہ عملی طور پر جائزہ لیتے ہیں تو انہیں اپنے لیڈر اس آئیڈیل کے قریب نظر نہیں آتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام نے ماضی کی خود ملامتی چھوڑ کر دوسروں کی ملامت بلکہ ہر ایک کی ملامت کا رویہ اپنا لیا ہے۔ لیڈر شپ اگر خود پر ملامت کرے، اپنا خود احتساب کرے، جوگی اور صوفی کی طرح خود اپنا جائزہ لے، خاکساری اپنائے، تکبر اور اناکے بت توڑے تو عوام بھی اس سے متاثر ہو کر ویسا ہی رویہ اپنائیں گے۔حالیہ مردم شماری یہ بتاتی ہے کہ اب اس خطے کی غالب اکثریت نوجوان ہے، ماضی میں شاید ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، نوجوانوں میں سوچ کی تیزی موجود ہے، تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ نوجوانوں نے بوڑھوں سے مکمل طور پر ہٹ کر نئی سوچ اپنائی، مکمل تبدیلی کی جدوجہد کی، بڑے بوڑھوں کو ساتھ ملایا، بلکہ وادیٔ سندھ کی تاریخ میں پہلی بار بوڑھے نوجوانوں کے پیچھے چلے اور بالآخر تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے۔ وادیٔ سندھ کے نوجوان مہم جوئی میں ہمیشہ سب سے آگے رہے ہیں، تاریخی طور پر پنجاب کے نوجوان روزگار کی خاطر یورپ اور افریقہ تک بلا جھجک چلے جاتے ہیں اور وہاں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں سینکڑوں نوجوانوں نے ملازمت کی خاطر یورپ اور ایشیاء میں جان تک کی قربانیاں دیں اور یوں اس خطے کی خوش حالی کا کریڈٹ بہرحال ہمیشہ سے نوجوان مہم جوئوں کو ہی ملتا رہا ہے، چاہے وہ انگریز فوج میں بھرتی ہونے والے سپاہی ہوں یا آج کے دور میں اوور سیز جاکر محنت کرنے والے پاکستانی۔تاریخی حوالوں سے اس خطے کی قیادت بزرگوں اور معمر افراد کے ہاتھ میں رہی ہے لیکن نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد
(Youth Bulge)
نے اب بوڑھوں سے یہ قیادت چھین لی ہے، اب نئی روایات اور رسم و رواج کا دور دورہ ہے۔ نئی زبان و بیان اور لہجہ اپنا لیا گیا ہے۔دیکھنا یہ ہوگا کہ وادیٔ سندھ کے باسیوں میں جوانوں کی لائی گئی تبدیلی وقتی تھی یا آئندہ بھی یہی نوجوان سرخرو ہوں گے، بظاہر یہ وقتی تبدیلی ہے، وقت کا مرہم لگے گا تو پرانی روایت کے مطابق اس خطے کے ہیرو پھر سے بوڑھے ہی ہوں گے۔