اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تفصیلی فیصلہ 39 صفحات پر مشتمل ہے۔تحریری فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک صفحے کا اضافی نوٹ تحریر کیا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی تنخواہ اور مراعات کا تعین صدر مملکت آرٹیکل 243کے تحت کرتا ہے۔
منتخب نمائندے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کریں۔معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے۔یہ یاد رکھیں کہ ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی۔کیس کا بنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا۔منتخب نمائندے اس حوالے سے قانون سازی کریں، قانون کی عدم موجودگی میں راویت کو غیر یقینی دور کرنے کے لیے لاگو کیا جا سکتا ہے۔
آئین کے تناظر میں پارلیمان قانون سازی کے ذریعے معاملہ حل کریں۔ ہماری حکومت قوانین کی ہے یا افراد کی۔ ہمارے سامنے مقدمہ تھا کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع کی جا سکتی ہے۔آرمی چیف کی تقرری، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی تاریخ موجود ہے۔پہلی بار یہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں آیا۔سماعت کے پہلے روز درخواست گزار عداالت میں پیش نہیں ہوا۔آرمی چیف کی مدر ملازمت میں تین سال کی توسیع دی گئی۔
قانون کے تحت جنرل کے رینک کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر یا مدت ملازمت نہیں دی گئی۔درخواست گزار اگلی سماعت میں عدالت میں حاضر ہوا۔ادارہ جاتی پریکٹس کے تحت ایک جنرل 3 سال کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوتا ہے۔ادارہ جاتی پریکٹس قانون کا موثر متبادل نہیں ہو سکتا۔وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع دی،وزیراعظم کو ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا آئینی اختیار حاصل نہیں ہے۔
قانون اور آئین میں مدت ملازمت کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو قانونی حمایت حاصل نہیں۔سال کی توسیع کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔تحریری فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ قانون نہ بن سکا تو 6 ماہ بعد آرمی چیف ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔اگر چھ ماہ میں قانون سازی نہ ہو سکا تو صدر نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر درخواست کا تحریری فیصلہ جاری
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر درخواست کا تحریری فیصلہ جاری
Publiée par ARY News sur Lundi 16 décembre 2019