جدہ (ویب ڈیسک) سعودی عرب میں ایک عام شہری سالانہ جتنی خوراک ضائع کرتا ہے، وہ شرح عالمی فی کس اوسط کے دو گنا سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ سعودی حکومت کے مطابق اشیائے خوراک کے صرف اس ضیاع کی مالیت ہی تیرہ ارب ڈالر سالانہ کے برابر ہوتی ہے۔خلیج کی اس قدامت پسند
ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔۔عرب بادشاہت اور تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں اب اس رجحان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ عام شہری کم سے کم کھانا کوڑے میں پھینکیں اور عوامی سطح پر وہاں خوراک کے ضیاع کے لیے ناپسندیدگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔خلیج کی عرب ریاستوں میں یہ ثقافتی رجحان مجموعی طور پر بہت زیادہ ہے کہ کھانے کی میز پر یا فرش پر جہاں بھی کھانا کھایا جائے، وہاں رنگ برنگے پکوانوں کے ڈھیر لگا دیے جاتے ہیں۔ اس طرز عمل کو عرب فراخ دلی اور مہمان نوازی کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ایسی خوراک کا زیادہ تر حصہ کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے۔سعودی عرب میں اس سماجی طرز عمل کے خلاف جو لوگ سرگرم ہیں، ان میں سے ایک مشال الخاراشی بھی ہیں،جو ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ کھانے کی ایسی پلیٹوں کو رواج دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں کم کھانا بھی زیادہ نظر آتا یا محسوس ہوتا ہے۔ایسی پلیٹیں اس طرح ڈیزائن کی گئی ہیں کہ درمیان میں کچھ گہری لیکن اندر سے پچکی ہوئی ایسی پلیٹوں میں جب مثال کے طور پر چاول ڈالے جاتے ہیں،
تو پلیٹ کے بیرونی حصے کا پھیلاؤ کم ہونے کے سبب اسے بہت زیادہ نہیں بھرا جا سکتا۔ یوں ایسی کسی بھی پلیٹ میں کھانے کے لیے ڈالا جانے والا کھانا کم ہونے کے باوجود بصری طور پر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔سعودی ریستورانوں میں ایسی پلیٹیں گزشتہ چند برسوں سے استعمال کی جا رہی ہیں۔ مشال الخاراشی کہتے ہیں کہ اس طرح کھانے کی ضیاع کی شرح 30 فیصد تک تو کم کی بھی جا چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”یہ پلیٹیں ایک ایسے جدت پسندانہ ڈیزائن کے تحت تیار کی گئی ہیں کہ ان کا درمیانی حصہ تہہ سے کچھ ابھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس طرح پلیٹ بھری ہوئی بھی ہو، تو اس میں زیادہ نظر آنے والا کھانا بھی دراصل مقابلتاﹰ کم ہوتا ہے۔‘‘الخاراشی کے بقول اس طرح گزشتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب میں تین ہزار ٹن سے زیادہ چاول کے ضائع کر دیے جانے سے بچا جا چکا ہے۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”اس طرح ہم نے کھانے پینے سے متعلق فراخ دلی اور مہمان نوازی کی سعودی روایات کا تحفظ کرتے ہوئے کھانے کے ضیاع کے رجحان میں اب تک خاطر خواہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔‘‘زیادہ تر صحرائی علاقے پر مشتمل سعودی عرب، جہاں قابل زراعت زمین کی شرح بہت کم ہے اور آبی وسائل کی بھی قلت ہے، اپنی آمدنی کے لیے گزشتہ کئی عشروں سے زیادہ تر صرف تیل کی برآمد پر انحصار کرتا آیا ہے۔اب لیکن ریاض حکومت یہ پالیسی بھی اپنا چکی ہے کہ اس عرب بادشاہت کو خام تیل کی برآمدات پر اپنا انحصار کم سے کم کرتے ہوئے ریاستی سطح پر آمدنی کے دیگر اور زیادہ ماحول دوست ذرائع کو فروغ دینا چاہیے۔(بشکریہ : ڈوئچے ویلے )