لاہور (ویب ڈیسک) ریاستی امور حکمران طبقہ کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں۔ ان سے رعایا ماں باپ جیسی شفقت اور ریاست صالح اولاد جیسے کردار اور تحفظ کی توقع رکھتی ہے مگر جب حکمران اشرافیہ کی نظریں رعایا کی جائیدادوں اور ہاتھ ریاست کے گریباں کی طرف اٹھتے نظر آتے ہیں تو یہ واقعہ یاد آجاتا ہے۔
نامور کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔:حضرت داؤدؑ کواللہ تعالیٰ نے بڑی سلطنت کا بادشاہ بنایا تھا۔ حضرت داؤدؑ کی ننانوے بیویاں تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک ایسی، عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا جس کو پہلے سے ہی ایک آدمی نے نکاح کا پیغام بھیجا ہوا تھا۔لیکن آپ کا پیغام پہنچنے کے بعد اس عورت کے گھر والوں نے اس آدمی کو منع کر دیا اور آپ سے اس عورت کا نکاح ہو گیا۔یہ بات نہ تو شرعاً ناجائز تھی اور نہ ہی اس وقت کے رسم و رواج کے خلاف تھی لیکن مکرم ابنیا کرامؑ کی شان بہت اعلیٰ ہوتی ہے۔ یہ آپ کے منصبِ اعلیٰ کے لیے مناسب نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کو آپ کی یہ ادا پسند نہ آئی۔اس لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہوئی کہ اس پر آپ کو متنبہ کیا جائے۔ چنانچہ اس کا ذریعہ یہ بنایا کہ فرشتے انسانی روپ میں آپؑ کے دربار میں ایک مقدمہ لے کر آئے اور بجائے دروازے سے داخل ہونے کے دیوار پھلانگ کر مسجد میں داخل ہو گئے۔آپؑ ان لوگوں کو دیوار پھلانگتا دیکھ کر کچھ گھبرا گئے۔ تو فرشتوں نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم دو فریق ہیں۔ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔ لہٰذا آپ ہمارا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیجئے۔ ایک نے کہا، یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے۔ اب یہ میرا بھائی کہتا ہے کہ تو اپنی یہ ایک دُنبی یعنی بکری بھی میرے حوالے کر دے
اور اس بات کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ سن کر حضرت داؤد ؑنے فوراًیہ فیصلہ فرما دیا کہ بے شک یہ زیادتی ہے کہ وہ تیری دُنبی کو اپنی دُنبیوں میں ملانے کو کہتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اکثر زور آور اپنے سے کم تر پر زیادتی کرتے ہیں۔بجائے ان لوگوں کے جو صاحبِ ایمان اور نیک عمل ہوں اور ایسے لوگوںکی تعداد بہت کم ہے۔ مقدمے کا فیصلہ سنا کر حضرت داؤد ؑ کو فوراًسمجھ آگیا کہ اس مقدمے کی پیشی درحقیقت میرا ایمان تھا۔ چنانچہ فوراً ہی آپ سجدے میں گِر پڑے۔ اور خدا سے معافی مانگنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کر دیا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے ۔’’تو ہم نے اسے معاف فرما دیا بے شک اس کے لیے ہماری بارگاہ میں ضرور قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔ اے داؤد بے شک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہکا دے گی۔ اللہ پاک طاقتور لوگوں اورحکمرانوںکو کمزوروں ظلم اوعرزیادتی سے منع فرماتا ہے۔اس واقعہ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ حضرت دائودؑ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے مگر جیسے ہی انہوں نے ایک آدمی کی حق تلفی کرنا چاہی تو اللہ پا ک نے انہیں خبردار کر دیا۔ آج کے دور میںاقتدار‘ پیسے اور طاقت میں بدمست لوگ اپنے آپ کو اس دنیا کا خدا سمجھتے ہیں۔
وہ ننانوے جائیدادوں‘ کوٹھیوں ‘ کارخانوں کو سو کرنے کے خبط اور جنون میں مبتلا ہیں۔ وہ بھول گئے کہ وہ چاہے جتنا مرضی پیسہ جمع کر لیں‘ جس قدر ان کے پاس اقتدار آجائے‘ جتنے وہ طاقتور جائیں مگر وہ اللہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اللہ کسی مظلوم کے ساتھ زیادتی کا بدلہ ضرور لیتا ہے۔ اللہ کی پکڑ بے شک بہت سخت ہوتی ہے۔آج اگر کسی کو اللہ کی پکڑ نظر نہیں آرہی تو وہ اپنے دماغ کا علاج کرائے۔ جن کی گردن میں سریا اور جن کا پیٹ دولت سے نہیں بھر رہا ان کیلئے قبرستان میں مُردوں کی علامتی یا فرضی گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیے،جس سے اشرافیہ کی سوچ پر شاید کوئی اثر ہوسکے۔ ’’ہمیں مرے ہوئے تین چار منٹ ہی ہو ئے تھے لیکن ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم بھی کبھی مر سکتے ہیں!میرے ساتھ والی قبر میں ایک سمارٹ خوبصورت مردہ تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم نے کبھی سگریٹ پیا‘‘ اس نے انکار میں سر ہلا دیا۔ کبھی ’’ شراب‘ چرس‘ گانجا‘‘ اس کا سر انکار میں ہلتا رہا- کبھی رش ڈرائیونگ کی ‘ پانی میں اندھی چھلانگ لگائی‘ تم سڑک پر پیدل چلتے رہے ہو یا تم لوگوں سے الجھ پڑتے ہو‘‘ اس نے انکار میں سر ہلایا اور دُکھی آواز میں بولا ’’ میں نے زندگی میں کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا‘‘میں نے پوچھا ’’ تمہاری عمر کتنی تھی‘‘ اس نے جواب دیا ’’ صرف 32 سال‘-’’ پھر تم کیسے مر گئے‘‘ اس نے کہا کہ میں بھی اس بات پر حیران ہوں، میں کیسے مر سکتا ہوں‘‘ اس نے چیخ کر جواب دیا ’’ میں اپنے لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا‘ مجھے اچانک سینے میں درد محسوس ہوا۔ میں نے چائے کا کپ میز پر رکھا‘ دُہرا ہوا اور اس کے بعد سیدھا نہیں ہو سکااور میں مر گیا‘‘۔میں نے پوچھا ’’ تمہاری اس وقت سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘اس نے میری طرف دیکھا اور بولا ’’ تین منٹ کی زندگی!! میں صرف تین منٹ کیلئے دنیا میں واپس جانا چاہتا ہوں. میرے ابو مجھ سے ناراض تھے، میں اپنی بیوی سے بدتمیزی کرتا تھا، میں نے اپنے بچوں کو کبھی پیار نہیں کیا، میں ملازموں کو وقت پر تنخواہ نہیں دیتا تھا۔ میں نے اپنے لان میں گلاب کے پھول لگوائے تھے لیکن میں ان کے پاس نہ بیٹھ سکا۔