لاہور (ویب ڈیسک) نواز شریف معتوب ہے، سزا یافتہ ہے، بہت سارے الزامات لگا کے اقتدار سے نکالا گیا ہے مگر اس کے باوجود وہ اس طاقت ور ترین شخص کے لئے موت کی سزا دینے کا فیصلہ کروانے میں کامیاب ہو گیا ہے جس نے اسے آج سے بیس برس پہلے گن پوائنٹ پر اقتدار سے محروم کیا تھا
نامور کالم نگار نجم ولی خان نے اپنے نئے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ اور پھر عدالت کے ذریعے جان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔ کہا جاسکتا ہے کہ نواز شریف اس وقت بھی پاکستان کا خوش قسمت اور طاقت ور ترین شخص ہے جس کے دشمن کو پی ٹی آئی کی حکومت مقتدر حلقوںکی پوری سپورٹ کے باوجود سزائے موت سے نہیں بچا سکی حالانکہ استغاثہ نے عملی طور پر صفائی کے وکیل کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس مسلم لیگ نون کی حکومت نے ہی چلایا تھا جب نواز شریف مئی 2013 کے انتخابات جیت کے وزیراعظم بنے تھے۔ دلچسپ امرہے کہ جناب آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں پرویز مشرف کے ملوث ہونے کا واضح اور دوٹوک الزام لگانے کے باوجود انہیں گارڈ آف آنر دے کر ایوان صدر سے رخصت کر دیاتھا۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ پاکستان کے معروضی حالات اور سیاسی تاریخ کے تناظر میں پرویز مشرف کودی گئی غداری کی یہ انتہائی سزا پر عمل نہیں ہوسکتامگر انہی معروضی حالات اور سیاسی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے بہت ساروں کے لئے یہ فیصلہ ہی حیران کردینے والا ہے۔ ابھی اس فیصلے خلاف اپیلوں کا مرحلہ باقی ہے مگر یہ ضروری قرار دیا جا رہا ہے کہ پرویز مشرف پہلے خود کو قانون کے سامنے سرنڈر کریں۔ اگرپاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت بھی اس فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تواس کے باوجود صدر مملکت کے پاس معافی دینے کاآپشن موجود ہے مگر مجھے بہت برس پہلے علم تھا کہ ایسا دن آسکتا ہے جس میں پرویز مشرف کو اس کے کئے کی سزا ملے گی اور اسی لئے میں نے نواز شریف کو آج سے بارہ برس پہلے مشورہ دیا تھا کہ وہ فروری 2008 میںہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ نہ کریں۔ وہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ قائم کئے گئے ایک سیاسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکے تھے مگر پیپلزپارٹی نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ آصف علی زرداری نے اگرچہ بی بی کے قتل کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا مگر وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ ان کی پارٹی کو مظلومیت کی بنیاد پر پیدا ہونے والی عوامی ہمدردی کا ووٹ مل سکتا ہے۔ وہ اپنے اندازے میں درست ثابت ہوئے اور قاف لیگ کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ مقتدر حلقوں کو آصف زرداری کو اسی طرح قبول کرنا پڑا تھا جیسے اس سے پہلے اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو کو کیا گیا تھا ۔ یہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات سے کچھ پہلے کی بات ہے ،میں ’آج ٹی وی‘ کی طرف سے پولیٹیکل کارسپانڈنٹ کے طور پر جاتی امرا رائے ونڈ میں ڈیوٹی پر تھا کہ اس روز صبح دس بجے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف سے یورپی ممالک کے سفیروں کا ایک وفد ملاقات کے لئے پہنچ رہا تھا ۔ یہ خبر ہمارے جاتی امرا پہنچنے کے بعد ملی کہ سفیروں کا جہاز کسی وجہ سے لاہور پہنچنے میں لیٹ ہو گیا ہے۔ ہم سب نواز شریف کی رہائش گاہ کے اندر داخل ہونے کے بعد دائیں ہاتھ پر بنے معروف گول کمرے میں موجود تھے
جو میاں محمد شریف مرحوم کا کمرہ کہلاتا تھا اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس روز ڈیوٹی پر پرویز بشیر صاحب کے علاوہ دیگر اداروں سے جونئیر رپورٹرز تھے۔ نواز شریف تیار ہو کر سفیروں کے استقبال کے لئے آ چکے تھے مگر اب کافی وقت تھا کہ آپس میں گپ شپ کی جائے لہذا محفل سج گئی۔ پرویز رشید سمیت مسلم لیگ نون کے کئی بڑے نام بھی موجود تھے۔ نواز شریف صاحب کی عادت ہواکرتی تھی کہ وہ دوسروں کی بہت سنتے تھے اور اپنی رائے بہت کم دیتے تھے۔ میں نے اس عادت کا مظاہرہ ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کرنے کے وقت بھی دیکھا تھا جب وہ سب کی سنتے تھے مگر اختتامی تقریر کرتے ہوئے بھی اپنی رائے چھپا لیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میاںنواز شریف نے جب صحافیوں سے پوچھا کہ ان کا انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ درست ہے تو سب کا ’ہاتھی کے پاو¿ں میں سب کے پاو¿ں‘ والا جواب آیا یعنی کہا گیا کہ میاں صاحب آپ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ کمال کا ہے، اس سے بہتر فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔ میری باری آئی تو میں نے کہا کہ پارٹی آپ کی ہے، سیاست آپ کی ہے مگر بطو ر ایک صحافی اور تجزیہ کار میں اس فیصلے کو سو فیصد غلط سمجھتاہوں۔ پہلی دلیل تو پچاسی کے انتخابات کی ہے جب پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ کیا اور آپ کے لئے راستہ کھول دیا، اب آپ بھی وہی غلطی کریں گے کیونکہ پیپلزپارٹی بائیکاٹ کرنے نہیں جا رہی ۔ مجھے اپنے الفاظ آج تک یاد ہیں ، میں نے کہا، اگر آپ پارلیمنٹ سے باہر ہوں گے تو کوئی آپ کو قومی اسمبلی کے باہر مظاہرہ بھی نہیں کرنے دے گامگر اندر کوئی آپ کا راستہ نہیں روک سکے گا اور یہاں دوسرا نکتہ پہلے کی طرح اہم ہے کہ
پرویز مشرف ایم ایم اے، ایم کیو ایم اور قاف لیگ وغیرہ کی مدد سے بارہ اکتوبر کے اقدام کی جائزیت لے چکا اور اب اگر پارلیمنٹ میںانہی لوگوں کو راستہ دیا گیا توایک مرتبہ پھر ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کرتے ہوئے ایمرجنسی پلس کو بھی آئین کا حصہ بنا دیا جائے گا۔ حکمت عملی یہ رکھئے کہ پرویز مشرف کے اقدام کو آئینی جائزیت نہ ملے یوںڈکٹیٹر کے سر پر ہمیشہ ایک تلوار لٹکتی رہے گی ۔ میاں نواز شریف نے میری باتیں بہت غور سے سنیں،کیپٹن صفدر سے کہا کہ وہ یہ تمام نکات نوٹ کرلے اور ہدایت کی کہ آج شام ہی سینئر وکلا ءکا اجلاس ماڈل ٹاو¿ن میں بلایا جائے جہاں ان پوائنٹس پر لیگل ڈسکشن کی جائے۔ سینئروکلا ءکااجلاس ہوا جس کی کوئی آفیشئل پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی مگر اس کے بعد الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ ختم کر دیا گیا جس پراس وقت دیگر حلیف جماعتوںجماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے نواز شریف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ( مجھے کچھ روز عرصہ قبل فرید پراچہ نے کہا کہ جماعت اسلامی سب سے بڑی غلطی ان انتخابات کا بائیکاٹ تھا )۔ الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ نون پہلے شریک اقتدار ہوئی اور پھر اپوزیشن کی بڑی پارٹی بن گئی۔ پنجاب میں بھی نواز لیگ نے حکومت قائم کی جس کے لئے مسلم لیگ قاف کے ارکان کی اکثریت نے اپنے لیڈر چودھری پرویز الٰہی سے بغاوت کی اور اسے پارلیمانی پارٹی کا اکثریتی فیصلہ قرار دیا۔نواز شریف انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ قائم رکھتے تومسلم لیگ نون ہی نہیں بلکہ بحال ہوتے ہوئے جمہوری عمل کو بھی بہت نقصان پہنچنا تھا ۔ اس الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی نے پرویز مشرف کو رخصت کرنے پر اکتفا کیا مگر نواز لیگ نے اقتدار میں آنے کے بعد سنگین غداری کا مقدمہ قائم کر دیا۔ پی ٹی آئی کے قائد اس وقت تک یوٹرن لے چکے تھے اور پھر انہوں نے دھرنے دئیے ۔ نواز شریف ایک بار پھراقتدار سے نکالے گئے مگر آج تاریخ لکھی گئی ہے کہ انہوں نے ایک سابق ڈکٹیٹر کے لئے پھانسی کا فیصلہ تحریر کروا دیا ہے جس کی بنیاد اس روز گول کمرے میں رکھی گئی تھی۔ (ضروری وضاحت: میرے اس کالم سے یہ ہرگز مطلب نہ لیا جائے کہ نواز شریف اہم معاملات پر میری رائے لیتے تھے بلکہ ہوتا یوں تھا کہ میں اپنی پروفیشنل ڈیوٹی پر ہوتا اور کبھی ڈسکشن ہوتی تو اپنا سو فیصد ایماندارانہ تجزیہ ان کے سامنے رکھ دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد گپ شپ تو دور کی بات، سامنے آنے پر سوا ل تک سننے سے گریز کرتے تھے۔ نواز شریف کا بغض اور کینہ مشہور ہے اور میں کبھی انہیں یقین نہیں دلا سکا کہ میں ان کا دشمن نہیں ہوں محض ایک صحافی اور تجزیہ کار ہوں)۔