لاہور(ویب ڈیسک) آج کل تو جسے دیکھو قدرتی حسن سے دور اور مصنوعی حسن کا مارا لگتا ہے۔ یہ عام لوگوں کی بات نہیں ہو رہی بلکہ شوبز ٹی وی، ریڈیو، ڈرامے اور فلمی صنعت کے اداکاروں کی بات ہو رہی ہے۔ بلکہ اُمراء خواتین بھی مصنوعی حسن کی خریدار نظر آتی ہیں
بیٹا ہو گا یا بیٹی؟ اس کا انحصار کس بات پر ہوتا ہے ؟ بڑے کام کی تحقیق
نامور خاتون کالم نگار رخسانہ رخشی لندن سے لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔اور وہ بھی جو مزید حسن بڑھانے کا شوق رکھتی ہیں۔ بناؤسنگھار بھلے ہی خواتین کا بنیادی حق ہے مگر اب بات بناؤ سنگھار سے کافی آگے چلی گئی ہے۔ اب مہنگے میک اپ سے خود کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ وہ اعضاء جن پر میک اپ اپلائی کیا جاتا ہے ان کی تراش خراش کا اہتمام بھی خواتین ضروری سمجھنے لگی ہیں۔ یعنی قدرتی حسن پہ اکتفا کرنے کا دور نہیں رہا۔ وہ بھی دور ہوتا تھا جب کوئی لڑکی میک اپ کرتی تھی تو خاندان کے بزرگ اس بے سبب بناؤسنگھار کو اچھا نہیں سمجھتے تھے بلکہ اگر کوئی لڑکی بھنوئیں تراشتی تھی تو گناہ کا حوالہ دیکر ڈرایا جاتا تھا اور بالوں کے نت نئے ڈیزائن اور تراشوانے پر خوب غصہ دکھا کر صلواتیں سنائی جاتی تھیں مگر اب تو بیٹی والدہ کو صرف اطلاع دیتی ہے کہ اسے اپنی ناک کی بناؤٹ پسند نہیں ہے لہٰذا وہ ناک کی سرجری ضرور کرائے گی حالانکہ ماں لاکھ منع کرے کہ تم بہت پیاری ہو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے مگر بیٹی ایک نہیں سنتی۔ چند ماہ پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو
محسوس ہوا کہ وہ آنکھ نہیں ملا پا رہی۔ کچھ تو ہمیں بھی ایک تبدیلی سی اس کے چہر پر نظر آرہی تھی عینک تھی کہ اس کے ناک کے تراشیدہ بانسے پر ٹک کر نہ دے رہی تھی وہ بھی نظر کمزوری کی عینک تھی جو ہروقت لگانا پڑے ورنہ نظر ہی نہ آئے۔ خیر ہم نے اعتماد د ے کر اسے تسلی دی کہ بتاؤ کیوں ایسے بے چین سی نظر آرہی ہو؟ اور چہرہ بھی مختلف لگ رہا ہے ۔ وہ بتانے لگی کہ میری ناک کافی پھیلی ہوئی تھی تو میں نے ستواں ناک کرانے کے چکر میں نوز جاب کرالی مگر پھر بھی میری پسند کے مطابق مجھے کچھ نظر نہ آیا تو دوبارہ مزید ناک ترش وا لی۔ اب حال یہ ہے کہ زیادہ ہی باریک ہوگئی ہے یہ اور نظر کی عینک بھی ناک کے بانسے پر ٹک نہ پا رہی ہے۔ہم نے اسے تسلی دی کہ اب ناک سے نازک فریم ہر جگہ تیارہوتے ہیں۔ اب ناک کو مزید کسی مشکل میں مت ڈالنا پہلے ہی تمہاری ناک ستواں ہونے کی بجائے لہسن کی ایک توری جتنی ہو کر رہ گئی ہے اور سرجری کرائی تو اس سے بھی جاؤ گی اور سانس لینے کیلئے پھر کہیں دو سوراخ ہی رہ جائیں گے۔سچ ہے کہ انسان کسی حال میں بھی رب کا شاکر نہیں رہتا۔ حالانکہ حسن و جمال تو اللہ کو بھی پسند ہے اسی لئے اس نے ہر چہرہ ہی خوبصورت تراشا ہے مگرلوگوں کو دوسروں کے تو کیااپنے چہرے بھی پسند نہیں آتے۔پہلے جڑی بوٹیوں سے سنگھار کی مصنوعات تیار کرکے خواتین کو عام استعمال کرائی جاتی تھیں۔
شہزادیوں ملکائوں کی کہانیاں مشہور ہیں تو کہیں گلاب کے عرق سے غسل کے قصے مشہور ہیں تو کہیں تالاب میں جڑی بوٹیاں ڈال کر اس کے اروما اور خوشبو کی مہک کو چہرے و جسم کی جلد کیلئے ٹانک سمجھا جاتا ۔ چہرے کی خاص دیکھ بھال کیلئے چندن کا اور ہلدی کا ابٹن کافی مشہور تھا۔ مختلف روغنیات کے استعمال سے بھی خواتین کا حسن دیر تک قائم رہتا بلکہ روغن بادام وہ کام کرتا تھا جو آج کل جھریاں ختم کرنے اور فیس لفٹنگ کے انجیکشن کررہے ہیں۔ مگر اب کسی کے پاس وقت نہیں کہ اتنی محنت کرے اورنتیجہ نہایت آہستہ آہستہ نصیب ہو۔ اب تو جلد سے جلد نہایت جدید کاسمٹیکس سرجری کے اور دیگر اوزار و آلات آگئے ہیں کہ بس پیسے پھینکے اور تماشا اپنے چہرے پر خوبصورتی کا دیکھئے ۔ آج کل صاحب حیثیت خواتین کے حسن کو زوال نہیں۔پچھلی مرتبہ پاکستان جانا ہوا تو چھوٹی بہن شیبا کو شوبز کی ایک تقریب میں لے گئی کہ ہمارا ساتھ ہو جائے گا شیبا ماشااللہ کنیئرڈ کالج کی گریجویٹ اور پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونی کیشن کی ڈگری ہولڈر ہے مگر نہایت سادہ سی شخصیت اورجنوئن یعنی خالص سی بندی کہ جسے بناؤٹی پن سے سخت نفرت ہے تو شیبا نے وہاں جو حسیناؤں کی بیوی اور شخصیت دیکھی تو کہنے لگی ’’کہ مجھے تو اس بنائوٹی دنیا میں کہیں بھی اصلی رونق نظر نہیں آرہی ہے۔ اگر یہ حسین ہیں تو حسن کا نور پھیلا نظر آنا چاہئے۔ مگر لگتا ہے ہر طرف پلاسٹک کی لیڈیز گھوم رہی ہیں کسی کا چہرہ اصلی نہیں اوپر سے ادائیں بھی نقلی ہیں ایک دوسرے سے بنائوٹی رویہ اور خلوص دکھا رہی ہیں یہ ایک دوسرے کو بظاہر مسکرا کر مل رہی ہیں مگر اندر سے ایک دوسرے کی کاسمیٹکس سرجری چیک کررہی ہیں کہ کس کی کتنی اچھی ہے
اور کہاں سے کرائی ہے۔ کوئی اصلی ناک منہ والی نہیں سب بطخ لگ رہی ہیں کسی کی آنکھوں سے لیکر ابرو تک اوپر کو کھینچی ہیں۔ جبڑے بھی اوپر کو چڑھے ہیں، ہونٹ بطخ کی طرح پھیل کر آگے کو ابھرے ہوئے ہیں ،چہرہ اتنا اوپر لفٹ کرالیا کہ کھنچ کر لمبوترہ ہوگیا جو صرف سکرین بیوٹی کے ہی کام آئے یا پھر تصویریں اچھی اتر سکتی ہیں وہ بھی خوب ہی میک اپ میں بوٹوکس او دوسری سرجریز چھپانے کی کوشش کی گئی ہے مجھے تو لگتا ہے میں بطخوں کے درمیان آگئی ہوں اور اس سے پہلے کہ میری حالات خراب ہو اور مجھے سانس لینا محال ہو جائے تو بس نکلنے کی کیجئے یہاں سے ‘‘۔ تو یہ شبیا کی حالت تھی اس محفل میں جسے شوبز کی دنیا کہتے ہیں۔ اپنی اپنی سوچ ہے ورنہ مجھے تو سب ہی اچھے دکھائی دے رہے تھے۔ ایک خوبی ہے اگر اداکار خود کو اپنی کاسمیٹکس سرجری اور بوٹوکس کے مطابق نازک اندام نہ بنائیں تو اور بنائوٹی دکھائی دیں جو کہ وہ دکھائی نہیں دیتے۔ بلکہ اپنے حسن کو لازوال بنانے والیاں اپنے جسم سے بھی چھوئی موئی اور نازک اندام نظر آتی ہیں اب بتایئے بھلا اتنے اہتمام کے بعد کسی کے بھی حسن کو زوال آسکتا ہے 60سال والی 45 کی لگتی ہیں اور 45والی 35تو شبیا نے معلوم نہیں کیوں انہیں پلاسٹک کی لیڈیز اورر بطخیں بنا دیا۔