لاہور (ویب ڈیسک) جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا ہے کہ جب 12 اکتوبر کو واقعہ ہوا تو عدالتوں نے کیس سن کر اس زمانے میں یہ کہا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور جنرل مشرف نے کیا۔یہ جھگڑا اس وقت ایک سیاسی حکومت اور آرمی کے درمیان تھا، اس کو عدالتوں
بیٹا ہو گا یا بیٹی؟ اس کا انحصار کس بات پر ہوتا ہے ؟ بڑے کام کی تحقیق
نے جائز قرار دے دیا ۔ دوسرے جھگڑے کی وجہ سے ایمر جنسی لگی اس میں دوسرا فریق عدالتیں تھیں۔ عدالت حکومت کو چلنے نہیں دے رہی تھیں۔ عدالت اپنی غلطی نہیں مانتی تھی لہٰذا انہوں نے اس اپنے خلاف پرویز مشرف کا بیان دینے سے گریز کیا ورنہ اگر مشرف آتے تو جس طرح 12 اکتوبر کا کیس جائز ہوا اسی طرح وہاں بھی وضاحت دیتے کہ جناب آپ ہماری حکومت چلنے نہیں دے رہے تھے اس لیے ایمرجنسی ڈکلیئر کرنا پڑی ۔ اس کیس میں دوسرا فریق عدالت تھی۔پھر جنرل پرویز مشرف کو نہ سننا سپریم کورت نے فیصلہ دیا کہ ان کو سنے بغیر فیصلہ کر دیں کیونکہ اس ملک کو جن لوگوں نے لوٹا ہے وہ جا کر لندن بیٹھیں عدالتیں بلائیں تو واپس آئیں ، پھر ان کے بارے میں کہا جائے کہ جب تک واپس نہیں آتے اس وقت تک کیس پینڈنگ کر دیں ۔ یہاں جو عجلت دکھائی گئی اس میں ذاتی مقصد نظر آتا ہے ۔پھر اس کیس کو بنانے میں نواز شریف اور افتخار چوہدری کا ہاتھ تھا جن کو پرویز مشرف کے سداتھ دشمنی تھی۔ اگر پرویز مشرف پر کرپشن کا لزام ہوتا تو پاک فوج بات نہ کرتی۔ یہ تو ایک جرنیل پر غداری کا الزام ہے جو فوج کسی صورت ہضم نہیں کر سکتی ۔