لندن (ویب ڈیسک) خدا کا شکر ہے آج جمعہ ہے۔‘اگر آپ اس وقت دفتر میں بیٹھے گھڑی کی سوئیوں کو تک رہے ہیں تو آپ کے ذہن میں یقیناً وہ سب چیزیں گھوم رہی ہوں گی جو کہ آپ اس ویک اینڈ پر کرنا چاہتے ہیں۔اسلامی ممالک میں جمعے کو ایک مبارک دن تصور کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ جمعے کی نماز ہے جو باجماعت ادا کی جاتی ہے۔
نامور خاتون صحافی جنیفر مائر بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن آج صرف جمعہ ہی نہیں، رواں ماہ کی 13 تاریخ بھی ہے، یعنی ’فرائیڈے دی تھرٹینتھ۔‘اگر مغربی کہاوتوں پر یقین کیا جائے تو یہ وہ تاریخ ہے جب کوئی بھی چیز ٹھیک نہیں ہوتی اور عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ لیکن ’جمعے کی 13 تاریخ‘ کی ساکھ اتنی خراب کیوں ہے، یہ خیال کہاں سے آیا کہ یہ ایک بدشگونی کا دن ہے اور کیا لوگ اس توہم پر یقین بھی کرتے ہیں؟ہم نے یہ سوال چند لوگوں کے سامنے رکھے۔۔۔وکٹوریہ سکوائر میں ایک بینچ پر بیٹھے جان اور جِلی ہیمر کہتے ہیں انھیں اس تاریخ کے حوالے سے کوئی خدشات نہیں۔جِلی ہیمر کہتی ہیں ’میری والدہ جمعے کی 13 تاریخ کو ہی پیدا ہوئی تھیں تو وہ اس دن کو ہمیشہ خوش قسمت تصور کرتی تھیں۔ میں بھی یہی سمجھتی ہوں۔‘قریب بیٹھے 26 سالہ نیال جانسٹون کے نزدیک یہ سب مذاق ہے۔’یہ کہانی محض لوگوں کی فکروں میں اضافہ کرنے کے لیے گھڑی گئی تھی۔ جمعے کا دن تو سب کو پسند ہوتا ہے۔ اس میں ناپسندیدگی کی کیا بات ہے؟‘لیکن ہر کوئی اتنا پُر اعتماد نہیں۔ قریب واقع گرجا گھر کے سائے میں میری ملاقات رومانیہ سے آئی ارورا مارین سے ہوئی۔
اگرچہ وہ ’فرائیڈے دی تھرٹینتھ‘ کے بدشگون ہونے پر یقین رکھتی ہیں لیکن انھیں ان توہمات کے حوالے سے شکوک بھی ہیں۔ ’یہ میرا وہم ہے.‘تو جمعے کے حوالے سے گردش کرتے توہمات آئی کہاں سے؟برطانیہ کے مشہور توہمات پر کتاب ’دی پینگوئن گائیڈ ٹو دی سپرسٹیشنز آف بریٹن اینڈ آئرلینڈ‘ لکھنے والے سٹیو روئڈ کہتے ہیں کہ جمعے کا دن اور 13 کا ہندسہ مغربی تہذیب میں ہمیشہ سے ہی بدشگون تصور کیا جاتا رہا ہے۔وہ جمعے کا ہی دن تھا جب بائبل کے مطابق حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے مسیحی برادری کے لوگ جمعے کو روزہ رکھتے ہیں اور گوشت سے اجتناب کرتے ہیں۔اس مذہبی روایت سے چلنے والے سلسلے کی بدولت آنے والی نسلوں میں جمعے کے دن کوئی بھی کام نہ کرنے کی عادت پڑ گئی۔سونے پر سہاگا یہ کہ 1690 کی دہائی میں یہ تصور سامنے آیا کہ کھانے کی میز پر 13 لوگوں کا بیٹھنا بھی بدشگون ہوتا ہے۔روایتی کہانیوں پر تحقیق کرنے والی مصنفہ این ماری لینگرم خود بھی ان توہمات پر یقین کرتی ہیں۔ ان کے مطابق ’13 کی بدقسمتی‘ کے حوالے سے کئی مفروضے پائے جاتے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے آخری عشائیے یا ’لاسٹ سپر‘ پر 13 مہمان تھے جبکہ چند حلقے اس کی بدشگونی کو 13 چڑیلوں کے جھرمڈ سے منسوب کرتے ہیں۔لیکن وکٹورین دور کے برطانیہ میں ان روایات نے جڑ پکڑی اور دونوں توہمات کو جوڑا گیا۔
مغربی دنیا میں بے تہاشہ توہمات ہیں: کالی بلّیاں، سیڑھی کے نیچے سے گزرنا اور سڑک پر پڑی دراڑوں پر پیر آنا۔۔۔ ان سب عوامل کو بدشگون سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ شروع کیسے ہوتے ہیں؟سٹیو روئڈ بتاتے ہیں ’زیادہ تر تواہم نے ایک ایسے وقت میں جنم لیا تھا جب ہر چیز ہی عجیب و غریب اور غیر یقینی لگتی تھا اور انسان سمجھتا تھا کہ اس کا زندگی پر بس نہیں چلتا۔‘پھر آیا قسمت کا تصور جس کے تحت یہ خیال عام ہوا کہ انسان اپنی قسمت کو خود بگاڑ یا سنوار سکتا ہے۔مثال کے طور پر جب بھی ارورا مارین کو کالی بلّی نظر آتی ہے تو وہ تین قدم پیچھے ہٹ کر دوبارہ چلنا شروع کرتی ہیں۔سٹیو روئڈ کہتے ہیں کہ زیادہ تر توہمات انسان کے اس ڈر سے جنم لیتی ہیں کہ کہیں اُس کی کسی حرکت سے معمولاتِ زندگی میں خلل نہ پیدا ہو جائے۔میز پر جوتے رکھ کر بیٹھنا، چھتری کو گھر کے اندر کھولنا یا گھر میں کسی جنگلی پرندے کا آ جانا: ان تمام توہمات پر اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔ان میں سے کچھ چیزیں ہمارے دماغ میں نقش ہو جاتی ہیں اور ہم اپنے بچوں کو بھی یہی سکھاتے ہیں۔سٹیو کہتے ہیں ’میں شاید پورے ملک میں سب سے کم توہم پرست شخص ہوں، لیکن پھر بھی میں اپنے آپ کو ’ٹچ وڈ‘ یا ’فنگرز کراسڈ‘ جیسے کلمات ادا کرتے پاتا ہوں۔
‘لندن کے کِنگز کالج میں نفسیات پڑھانے والے مائیکل ایٹکن کہتے ہیں ’ہم مختلف توہمات کے بارے میں اور لوگوں سے سن کر انھیں اپنے ذہنوں میں بٹھا لیتے ہیں کیونکہ جب حالات آپ کے بس سے باہر ہو جائیں تو یہی توہمات ہمارے ذہن کو تسلی دیتی ہیں۔‘ توہمات کی ابتدا کسی ایسے فعل سے ہوتی ہے جس کے ساتھ نیک شگون وابستہ ہوں یا کوئی ایسا کام جسے کرنے سے قسمت بہتر ہونے کا امکان ہو۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ وہ عوامل دہرانے لگتے ہیں جو ان کے نزدیک خوش قسمتی کے ضامن ہوتے ہیں۔خطرناک نوکریاں کرنے والے یا ایسے افراد جن کے کام میں قسمت کا بڑا کردار ہو، جیسے کے فٹبال کے کھلاڑی، ذاتی توہمات کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں اور وہ اپنی اچھی قسمت نہ کھونے کے چکر میں ایسی روایات کو معمول بنا لیتے ہیں۔جِلی ہیمر کا خیال ہے کہ ایک بار آپ کے ذہن میں یہ بات آ جائے کہ کوئی چیز بدشگون ہے یا کوئی کام کرنے سے خوش قسمتی بڑھتی ہے، تو ایسے خیالات کو ترک کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔’اگر آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سڑک پر پڑی دراڑوں پر پیر رکھنا بدشگون ہے تو آپ جلدی میں بھی محتاط ہو کر چلیں گے، خاص طور پر اگر آپ کا اس دن کوئی ضروری انٹرویو ہے اور آپ کوئی خطرہ نہیں مول لینا چاہتے‘۔(بشکریہ : بی بی سی )