اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) معروف صحافی و تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے دعویٰ کیا ہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد نے صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے ایوانِ صدر میں لنچ یا ڈنر کرنے کی دعوت ٹھُکرا دی ہے۔ رؤف کلاسرا نے ایک وڈیو پروگرام میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دسمبر کا مہینہ واقعات سے
بھرپور مہینہ تھا۔ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر بہت سے مسائل کا سامنا رہا۔جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کا معاملہ بھی پارلیمنٹ کے سپرد کیا گیا ہے۔ اس پر بھی بہت شور اُٹھ رہا ہے کہ پارلیمنٹ یہ معاملہ کیسے کرے گی۔ اور اس کے بعد ابھی گرد بیٹھ ہی رہی تھی کہ خصوصی عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سُنا دی۔ اس سے بھی ایک تنازعے کی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔جب کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اب چیف جسٹس گلزار احمد آئے ہیں ۔جسٹس گلزار احمد صاحب نے کراچی کے حوالے سے بڑے بڑے فیصلے کیے ہیں، جن میں غیر قانونی عمارات کی تعمیر، تجاوزات پر بھی سخت فیصلے دیئے اور رینجرز کے شادی ہالز کو بھی گرانے کا حکم دیا۔ اُن کے بہت سے فیصلوں سے کچھ حلقے ناراض بھی رہے۔ نواز شریف کے خلاف پانامہ کا فیصلہ دینے والے ججز میں ایک تو جسٹس آصف سعید کھوسہ تھے اور دوسرے جسٹس گلزار احمد تھے۔ان دونوں جج صاحبان نے ہی نواز شریف کو ڈس کوالیفائی کرنے کا فیصلہ سُنایا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیش کونسل میں ریفرنس دائر نہیں کرے گی۔ کیونکہ اس سے بھارت کو یہ پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مِل جائے گا کہ چیف جسٹس نے چونکہ کلبھوشن یادیو سے متعلق کیس سُنا تھا، اس لیے اسٹیبلشمنٹ اُن سے بدلہ لینا چاہ رہی ہے۔ایک اور خبر یہ ہے کہ اس وقت عدلیہ اور حکومت کے درمیان جو مشرف کے معاملے پر رسہ کشی چل رہی ہے،
اُس حوالے سے ایک قومی اخبار کے صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شاید جسٹس گلزار احمد کو دعوت دی ہے کہ وہ ایوانِ صدر تشریف لائیں اور اُن کے ساتھ لنچ یا ڈِنر کریں۔ مگر چیف جسٹس گلزار احمد نے صدر مملکت کی جانب سے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اگر صحافی حسنات ملک کی یہ بات ٹھیک ہے تو پھر میرے خیال میں عارف علوی صاحب کو یہ دعوت نہیں دینی چاہیے تھی۔ کیونکہ اس سے حکومت پاکستان اور چیف جسٹس کی ساکھ پر بھی سوالات اُٹھ جاتے اور حکومت کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہونی تھیں۔کیونکہ کل کو اگر چیف جسٹس حکومت کے حق میں کوئی فیصلے دیتے ہیں، چاہے وہ فیصلہ میرٹ پر ہی کیوں نہ دِیا جائے، مگر پھر یہ باتیں شروع ہو جائیں گی کہ چیف جسٹس کھانوں پر جاتے رہے ہیں۔سو اسی وجہ سے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ میرے خیال میں چیف جسٹس نے اگرعارف علوی صاحب کی جانب سے کھانے کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا ہے تو انہوں نے اپنے غیر جانبداری کا تاثر برقرار رکھنے کی خاطر ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ جس موقع پر جسٹس گلزار احمد چیف جسٹس لگے ہیں، وہ ایک بہت مشکل مرحلہ ہے۔ کیونکہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان اس وقت ایک رسہ کشی کی صورتِ حال ہے۔ حکومت اور اُس کے وزراء عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان آرمی کی جانب سے بھی کھُل کر تنقید کی گئی ہے۔