دوسری جانب اب وہ نوجوان جو کامیاب زندگی گزار رہے ہیں انہوں نے ینتلاگن کے نظریے پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی دولت اور کامیابیوں کے بارے میں بلا جھجھک بات کرنی چاہیے۔ اس قسم کے نوجوانوں میں 22 سالہ نکول فیلشیانی بھی شامل ہیں جنہوں نے کم عمری میں ہی بلاگ لکھنے کا آغاز کر دیا تھا اور اب انسٹاگرام پر ان کے فالوورز کی تعداد تین لاکھ 54 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس دن بہت خوش ہوں گی جب ینتلاگن کا نظریہ غائب ہو جائے گا کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہم سب کے لیے بہت اچھا ہو گا۔ اگر ہم دولت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمارا معاشرہ کھل جائے گا۔ یہ خیال تو بہت اچھا ہے کہ تمام لوگ برابر ہوں، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے کیونکہ آپ دوسروں سے زیادہ محنت کر رہے ہیں۔ آپ کو اس پر فخر کرنا چاہیے۔‘ ناروے کی ایک یونیورسٹی میں تقابلی سیاسیات کے پروفیسر کورنیلئس کپیلن سمجھتے ہیں کہ نوجوانوں کے ینتلاگن کے اس قدر خلاف ہونے کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بلاگنگ، خاص طور ویڈیو بلاگنگ اس قسم کی ’بےلگام انفرادیت پسندی‘ کو ہوا دے رہے ہیں جس میں ہر کوئی ہجوم سے الگ دکھائی دینا چاہتا ہے۔ پروفیسر کورنیلئس کپیلن کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک باقی یورپ کی نسبت شمالی یورپی معاشروں میں اس قسم کا رجحان بہت کم تھا، خاص طور پر امریکہ کے مقابلے میں تو بہت کم تھا۔ لیکن اب ان کے بقول ’ایسے نوجوانوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو ینتلاگن کے اصول کو ایک گالی سمجھتے ہیں، خاص طور پر کم عمر لڑکے لڑکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس سوچ سے نفرت ہے۔‘ اکرسٹورم بھی اس تبدیلی کا ذمہ دار سوشل میڈیا کو قرار دیتی ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ سویڈن کے وہ نوجوان جنہوں نے اپنا لڑکپن ینتلاگن کے دباؤ میں گزارا ہے، وہ جب نالائق لوگوں کو سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر بولتا سنتے ہیں، تو ان محنتی نوجوانوں کو غصہ آتا ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ ینتلاگن کی سوچ آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی کیونکہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی اس سوچ کے دباؤ میں گزاری ہے وہ ایک دن کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ ’میں یہ کام تم سے بہتر کر سکتا ہوں۔‘
سٹاک ہوم (ویب ڈیسک) سٹاک ہوم کے امیر ترین علاقے اوسٹیرمالم میں ساحل کے ساتھ نجی کشتیاں، تیرتے ہوئی بارز موجود ہیں۔ تین شاہراہوں سے منسلک اس جگہ پر کشتیوں میں سویڈن کے دارالحکومت کے مہنگی ترین دکانیں ہیں اور یہاں بوتیک اور ریستوران بھی ہیں۔ قریب ہی 18ویں صدی کی ایک پرتعیش
بی بی سی کی ورک لائف کی نمائندی میڈی سیوج اپنی پورٹ میں لکھتی ہیں۔۔۔۔عمارت میں دفاتر اور لوگوں کی ذاتی بار بھی ہیں۔ یہ علاقہ خزان کی دھوپ سے بچنے کے لیے ڈیزائنرز سیاہ چشمے پہنے لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن ان سب میں کسی ایسے فرد کو تلاش کرنا جو اپنی دولت کے بارے میں بات کرے تقریباً ناممکن ہے۔ مارکیٹنگ سے وابستہ 30 سالہ رابرٹ انگیمیرسن کا کہنا ہے کہ ’میں آپ کو نہیں بتاؤں گا کہ میں کتنا کماتا ہوں کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ مجھے یہ بتانا چاہیے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ان پیسوں سے کیا کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا ’میں انہیں سٹاک مارکیٹ میں لگاتا ہوں،
مجھے سرمایہ کاری پسند ہے۔‘ 24 سالہ وکٹر ہیسی شاپنگ کے لیے نکلے ہیں۔ وہ ایک بین الاقوامی ٹیلنٹ پروگرام میں سویڈن کی جانب سے شرکت کریں گے۔ جب ان سے ان کی تنخواہ کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا ’یہ راز ہے۔‘ سویڈن کے بارے میں ایک عام رائے یہی ہے کہ یہاں سوشل ڈیموکریسی، زیادہ ٹیکس اور عالمی معیار کے حساب سے کم اور غیر مساوی آمدن ہے۔ یہاں سنہ 1990 کی دہائی کے بعد امیر اور غریب کا فرق مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ملک میں 20 فیصد امیر آبادی غریب ترین 20 فیصد آبادی سے چار گناہ زیادہ کماتی ہے۔ زیادہ آمدن کئی ممالک میں کامیابی کی علامت ہے، لیکن سویڈن کے لوگوں میں دولت کے بارے میں بات کرتا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ نوجوانوں سے انٹرویو کی ہماری متعدد کوششیں ناکام رہیں کیونکہ وہ اپنے بڑے گھروں، خاندانی کشتیوں، سپورٹس کاروں اور نائٹ کلبز کی شاموں کے بارے میں آف دی ریکارڈ تو بات کرنے پر خوش تھے لیکن ان سے اس بارے میں باقاعدہ بیان لینا مشکل تھا۔
ایک نوجوان نے ٹیکسٹ میسج میں مجھے جواب دیا کہ ’مجھے لگتا ہے یہ شیخی بگھارنے جیسا ہوگا، اور بدقسمتی سے میں اس کے بارے میں بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔‘ کچھ دوسرے نوجوان انٹرویو دینے پر رضامند تو ہوئے لیکن بعد میں ’بہت مصروف‘ ہو گئے یا کسی بھوت کی طرح غائب ہو گئے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ دنیا کے کچھ ممالک میں اپنی دولت کے بارے میں بات کرنا بالکل مناسب سمجھا جاتا ہے، لیکن سٹاک ہوم میں ایسا لگتا ہے کہ کوئی شخص بھی دولت مند ہونے میں فخر کا اظہار نہیں کرتا۔ سٹاک ہوم میں کئی عشرے گزارنے والی ادیب لولا اکینمڈ اکرسٹروم کا کہنا ہے کہ سویڈن میں پیسے کے بارے میں بات کرنا ’ایک بہت پریشان کر دینے والا موضوع‘ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنی دولت کی شیخیاں بگھارنا، حتیٰ کہ کسی اجنبی سے اپنی عام سی تنخواہ کے بارے میں بات کرنا، اتنا برا سمجھا جاتا ہے کہ یہاں زیادہ تر لوگ اس موضوع کے بجائے سیکس کے بارے بات کرنا زیادہ آسان سمجھتے ہیں۔ کئی سال امریکہ میں رہنے والی 28 سالہ صحافی سٹینا ڈالگرن بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کے بقول ’امریکہ میں، اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ بہت پیسے کماتے ہیں تو لوگ تالیاں بجانے لگیں گے اور کہیں گے کہ واہ کیا بات ہے، بہت اچھے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ لیکن یہاں سویڈن میں، اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ کی تنخواہ بہت اچھی ہے، تو لوگ آپ کو بڑی عجیب نظروں سے دیکھیں گے۔ یہاں ’آپ تنخواہ کے بارے میں سوال نہیں کرتے اور نہ ہی دولت کے بارے میں۔ بہت سے ماہرینِ ثقافت سمجھتے ہیں کہ کسی حد تک اس کی وجہ شمالی یورپ کی وہ قدیم (نورڈِک) روایات ہیں جو لوگوں کے دماغ میں راسخ ہیں۔ ان روایات کو
Jantelagen (ینتلاگن)
کہا جاتا ہے۔ ینتلاگن کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود کو باقیوں سے کبھی بہتر نہ سمجھیں، یعنی انفرادی کامیابی کوئی کامیابی نہیں ہے۔ اکرسٹورم کہتی ہیں کہ سویڈن میں لوگ اس اصول کو مانتے ہیں اور اس وجہ سے ’آپ کبھی اپنی نمائش نہیں کرتے، غیر ضروری شیخی نہیں بگھارتے۔ یوں عام طور پر لوگوں کو برابر سمجھا جاتا ہے تاکہ کسی گروپ میں کوئی شخص دباؤ نہ محسوس کرے۔‘ ناروے کے پروفیسر ڈاکٹر سٹیفن ٹراٹر نے اس نظریے کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شمالی یورپ، خاص طور پر یہاں کے دیہی علاقوں میں یہ سوچ کئی صدیوں سے موجود ہے۔ ان کے بقول ینتلاگن کا نظریہ اصل میں معاشرتی کنٹرول کا ایک طریقہ ہے۔ یہ صرف دولت کی بات نہیں بلکہ اس نظریے کے مطابق آپ کو کسی بھی حوالے سے بڑی بڑی باتیں نہیں کرنی چاہئیں اور کوئی بڑا بول نہیں بولنا چاہیے۔‘ اگر قناعت پسندی کے پہلو کو دیکھا جائے تو ینتلاگن سے ملتی جلتی ایک اصطلاح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی پائی جاتی ہے جسے ’ٹال پوپی سینڈروم‘ کہا جاتا ہے۔ ان ممالک میں اگر کوئی شخص اس سینڈروم میں مبتلا ہو اور اپنی دولت یا رتبے کے بارے میں لمبی چوڑی ہانک رہا ہو تو کہتے ہیں کہ اسے واپس اپنی جگہ پر لانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح سکاٹ لینڈ میں ’کریب مینٹیلٹی‘ یا ’کیکڑوں والی سوچ‘ کی بات کی جاتی ہے، یعنی جب ایک بالٹی میں قید کیکڑوں میں سے کوئی ایک ہمت کر کے بالٹی سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے تو باقی کیکڑے اسے کھینچ کر واپس اندر لے آتے ہیں۔
ڈاکٹر سٹیفن ٹراٹر کہتے ہیں کہ سکینڈے نیویا میں لوگوں نے اس قسم کی سوچ یا نظریات کو بیان کرنے کے لیے ایک اصطلاح بنا لی ہے، یعنی ینتلاگن۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر سٹیفن ٹراٹر یہ بھی کہتے ہیں کہ ینتلاگن کا اصول سویڈن یا شمالی یورپ کے دوسرے ممالک میں کیسے لاگو ہوتا ہے، اس کا انحصار اس قوم کی مخصوص ثقافت پر بھی ہوتا ہے۔ مثلاً اب ان ممالک میں یہ لوگ یہ بتانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ ان کا جنگل میں بھی ایک چھوٹا سا مکان یا کیبن ہے یا وہ اپنے گھر کے فرش کو گرم رکھنے کے لیے مخصوص ہِیٹنگ سسٹم لگوا رہے ہیں، کیونکہ ان ممالک میں یہ عام سی بات ہے۔ لیکن اگر کوئی کہتا ہے کہ اس نے دونوں گھروں پر برابر رقم خرچ کی ہے تو ہو سکتا ہے لوگ آپ کی بات پر ہنسیں۔ اکرسٹورم کہتی ہیں کہ اگرچہ سویڈن ہمیشہ سے اس جدوجہد میں رہا ہے کہ عالمی سطح پر اس کی یہ شبیہ قائم رہے کہ سویڈش معاشرے میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی یہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو صرف ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جو تنخواہ میں ان کے برابر ہوں۔ اکرسٹورم کے بقول اس رجحان کا مطلب یہ ہے کہ ینتلاگن کا اصول کوئی مستقل چیز نہیں ہے بلکہ لوگ اپنے تناظر کے لحاظ سے اسے بدلتے رہتے ہیں۔ اسی لیے اگر کوئی اپنے جیسوں میں بیٹھا ہو تو وہ شیخی بگھارنے سے گریز نہیں کرتا۔ ’اس لیے بند دروازوں کے پیچھے اگر ایک جیسے معاشی اور معاشرتی پس منظر کے (امیر) لوگ بیٹھے ہوں تو وہ شہروں سے دور اپنے اس گھر کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے جہاں وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارتے ہیں۔