لاہور (ویب ڈیسک) حُسنِ اتفاق سمجھیں یا ابجد کا حساب جاننے والے کی منصوبہ بندی، پاکستان اِس وقت حرفِ ابجد ’’ع‘‘ کے دورِ عروج سے گزر رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے نام میں موجود حرف ع کا سایہ پورے پاکستان پر ہے، صدر پاکستان عارف علوی کے نامِ نامی میں ایک عین نہیں بلکہ دو عین ہیں۔
نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وزیراعظم عمران خان کے تین قریبی ترین افراد بھی ع ہیں۔اُن کی اہلیہ فرسٹ لیڈی بشریٰ مانیکا اپنا نام تبدیل کر کے اب باقاعدہ بشریٰ عمران کہلاتی ہیں، اُن کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی عین کی پناہ میں ہیں اور تو اور ذلفی بخاری کا پورا نام ذوالفقار عباس بخاری ہے یوں وہ بھی ع کے سائے میں ہیں۔پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہزار ناکامیوں اور خرابیوں کے باوجود اپنے نام میں موجود ’’ع‘‘ کی وجہ سے محفوظ ہیں اور تو اور پنجاب کے نئے چیف سیکرٹری اعظم سلیمان اور نئے انسپکٹر جنرل پولیس شعیب دستگیر کے ناموں میں موجود لفظ ’’عین‘‘ نے ہی اِنہیں دورِ عمران میں عروج پر پہنچایا ہے۔ہماری محبوب مشیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی اونچی اُڑان کی وجہ بھی اُن کے نام میں دو ’’ع‘‘ ہونا ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی ’’ع‘‘ ہی کے انعام یافتہ ہیں۔حروفِ ابجد میں ’’ع‘‘، اردو کا چوبیسواں، عربی کا اٹھارہواں اور فارسی کا اکیسواں لفظ ہے۔ جمل کے حساب سے لفظ ’’ع‘‘ کے 70عدد فرض کئے گئے ہیں، لوحِ عین کو برائے ابطالِ سحر اور برائے بخت کشائی اکسیر سمجھا جاتا ہے۔ علمِ ابجد کے معروف ماہر علامہ حسن عسکری نقوی کے مطابق حرف عین کے ظاہر کے اعداد 70اور باطن کے اعداد 60ہیں۔ظاہر میں یہ ع ہے مگر باطن میں یہ س ہے کیونکہ س کے اعداد بھی 60ہیں۔ لفظ عین کو ملکوتی اور قمری درجہ حاصل ہے اور اس کے شخصیت پر گہرے اثرات پڑتے ہیں اور وہ شخص ایک طرف جادو سے محفوظ رہتا ہے
تو دوسری طرف اس کی قسمت میں عزت اور وقار بھی ہوتا ہے۔علمِ ابجد سے ہٹ کر علم سیاسیات میں آئیں تب بھی حرف ’’ع‘‘ نے حالیہ برسوں میں لفظ ن (نواز شریف)، ش (شہباز شریف) آ (آصف زرداری) اور ب (بلاول بھٹو) کو بری طرح سے شکست دی ہے۔اگر اعداد کی جنگ کو مدِنظر رکھا جائے تو ’’ع‘‘ عروج پر ہے جبکہ س، ق، ن اور ب سب اِس کی زد میں ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ باقی اعداد ’’ع‘‘ کا توڑ کیسے کریں گے؟تحریک انصاف اپنے اقتدار کے پندرہ سولہ ماہ مکمل کر چکی ہے اب اِس کے ڈیلیوری کے دن ہیں، اب مخالفوں کی سازشوں اور ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں کے بہانے نہیں چل سکتے، اب اِنہیں ہر حال میں معیشت کی بہتری اور مہنگائی کی روک تھام کے اقدامات کرنا ہیں۔عوامی صبر کا جام چھلکنے والا ہے، مارچ اور اپریل کے بعد کسی بھی وقت مہنگائی اور معاشی بدحالی کا جن بوتل سے باہر نکل کر بےقابو ہو سکتا ہے۔ فی الحال ملک کی رفتار رکی ہوئی ہے، یہ توقف اُس وقت ختم ہو گا جب نوٹیفکیشن جاری ہو گا، اُس کے بعد ہی سیاست، خارجہ پالیسی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے مراحل طے ہوں گے۔اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اصلاحات، بہتری اور تبدیلی کا فوکس صوبے ہوں گے کیونکہ مرکزی سطح پر یہ احساس ہو چکا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد زیادہ تر بجٹ اور اختیارات صوبوں کو مل چکے ہیں، اس لئے پہلی ترجیح یہ ہے کہ
صوبوں کی گورننس بہتر کی جائے وہاں کے حالات کو درست کیا جائے اسی سے ملک کے معاملات درست ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ فروری یا اُس کے بعد سے پنجاب میں اصلاحِ احوال کی طرف بھرپور توجہ مرکوز ہو گی، اس کے بعد خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں بھی تبدیلی اور اصلاحات کے لئے توجہ دی جائے گی۔ اِس سارے ٹاسک میں تین سے چار ماہ لگیں گے۔وفاقی حکومت کے پاس اس دوران اتنا وقت ہو گا کہ وہ اپنی ترقیاتی اور معاشی سمت طے کر لے۔ اگر وہ معاملات سنبھالنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو اُن کے پاس بھی رخصتی کے علاوہ چارئہ کار نہیں ہو گا۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ وہ ایک سافٹ ٹارگٹ ہے خام خیالی ہو گا وقت آنے پر وہ لوہے کا چنا ثابت ہو گی اور ملک میں ایک نئی کشمکش کو جنم دے گی۔تاہم ملک میں اصلاح لانے کے خواب دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ جب چاہیں گے کہ پارلیمان کے ذریعے تبدیلی لے آئیں گے اور یہ تبدیلی چائے کی پیالی میں طوفان تو لاسکتی ہے اس سے زیادہ کوئی تحریک برپا نہیں کر سکے گی کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کی کوتاہیاں اور ناکامیاں ہی اس کے خلاف چارج شیٹ ثابت ہوں گی۔خواجے، عباسی، واوڈے یا بلاول جو بھی کہیں، جیسے بھی دلائل لے آئیں، سچ تو یہ ہے کہ سیاست جوش، جذبے، نظریے اور عوامی احترام سے فارغ ہو چکی ہے، ایسی بےسمت سیاست کے لئے کون لڑے گا۔اگر سیاست نظریے نہیں اقتدار کے حصول کا نام ہے تو پھر یہ اشرافیہ کی اندرونی جنگ تک محدود رہے گی۔ عوامی حقوق، عوامی خدمت اور جمہوری نظریے کے بغیر سیاست بےمعنی ہے اسی لئے حالیہ دنوں میں سیاست کا کوئی سر پیر نظر نہیں آ رہا۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا نیا بیانیہ کیا ہو گا؟ جمہور کی سیاست کون کرے گا؟ اشرافیہ اور پاور بروکرز کا ساتھ کون دے گا؟ اس حوالے سے دو تین ماہ کے اندر نئی صف بندی ہو گی، نئی سیاست کا آغاز ہو گا۔ پنجاب میں آخری جنگ بہرحال تحریک انصاف اور نون لیگ میں ہی ہو گی۔سیاست کے اگلے مرحلے میں نواز شریف اور آصف زرداری پسِ پردہ رہیں گے یوں شہباز، بلاول اور مریم اپوزیشن کے بڑے نام ہوں گے۔ عمران خان کو اپنی سیاسی زندگی کی آخری لڑائی انہی سے لڑنا ہو گی۔ہو سکتا ہے کہ عمران کے کچھ غیر متوقع دشمن بھی ان کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ اصل سیاست مارچ ہی میں شروع ہو گی تب ہی پتا چلے گا اب کون کدھر ہے؟ اور پاور بروکرز اب کس کے ساتھ ہیں؟