لاہور(ویب ڈیسک) پاکستان میں کئی ہائی پروفائل شخصیات قتل ہوچکی ہیں جن کامعمّہ آج تک حل نہیں ہوسکا۔اسی طرح کئی فنکاروں کوبھی مختلف اوقات میں قتل کیاگیا یااس کی سازش کی گئی۔کون کون سے پاکستانی فنکارقتل ہوچکے ہیں اورقاتل کے قدموں کے نشان کہاں تک جاتے ہیں؟ذیل میں اس حوالے سے
نامور صحافی حسن عباس زیدی اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ نِگوقتل ہونیوالی غالباً پہلی پاکستانی فنکارہ تھیں۔وہ خوبصورتی کیساتھ ساتھ رقص میں بھی مہارت رکھتی تھیں اورانہیں پنجابی فلموں میں زیادہ ترمُجروں کیلئے کاسٹ کیاجاتا تھا۔آج کی فلموں میں مُجروں کی جگہ آئٹم نمبرز نے لے لی ہے جو دراصل بھارت سے روایت آئی ہے۔اس زمانے میں اگر کسی فلم میں مُجرا فلمانا ہوتا تو پہلا انتخاب نِگو ہوتی تھیں۔بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ نِگو1972ء میں فلم کی عکسبندی کے دوران ایک فلم ساز خواجہ مظہر کی محبّت میں گرفتار ہوگئی تھیں جس کے بعددونوں نے شادی کر لی ۔نِگو کاتعلّق بازارحُسن سے تھا اورخاندان والے اس شادی پرسیخ پا ہوگئے۔پہلے توانہوں نے نِگو پرشوہر سے علیحدگی کیلئے دباؤڈالا لیکن جب تمام تدبیریں ناکام ہوگئیں تونِگو کی ماں نے ایک چال چلتے ہوئے شدید بیماری کا ڈارمہ رچایا اوراس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آخری وقت میں بیٹی کو دیکھناچاہتی ہوں نِگوماں سے ملنے آئیں تواس کی برین واشنگ کی گئی جس کے بعد نگو نے شوہر کیساتھ واپس جانے سے انکار کردیا تواس کے شوہر نے ایک دن موقع پا کر بازار حُسن میں فائرنگ کرکے نِگو کوموت کے گھاٹ اُتار دیا۔قتل کی خبرفلمی صنعت میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کیونکہ اس طرح کا کوئی واقعہ پہلے نہیں ہوا تھا۔نِگو کی ماں نے مقدمے کی پیروی کی اورخواجہ مظہر کوعمر قید کی سزا ہوگئی اورسزا پوری کرنے کے بعدآبائی شہر گوجرانوالہ میں طبعی موت مرے۔ فلمی صنعت کے ایک اور بڑے فنکار رفیع خاورعرف ننّھا کی موت بھی سربستہ راز ہے۔رفیع خاور کوشُہرت پی ٹی وی کے سُنہرے دنوں کی کامیڈی سیریز’’الف نون‘‘ سے ملی تھی
جس میں وہ کمال احمد رضوی کیساتھ لوگوں کو ہنسا ہنسا کرلوٹ پوٹ کر دیتے تھے۔اس سے پہلے ننّھا نے فنّی سفرکا آغاز فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں سے کیا تھا۔اس وقت تک فلموں میں منوّرظریف اوررنگیلا کا طوطی بولتا تھا اوردونوں بڑے مزاحیہ فنکاروں کی موجودگی میں ایک نئے مزاحیہ فن کار کا جادو نہیں چل رہا تھالیکن1973ء میں ریلیزہونے والی فلم’’ضِدّی‘‘نے ننّھا کاجادوبھی چل گیاجس کے بعد 1975ء میں اُردوفلم ’’نوکر‘‘میں بھی ننّھا نے اہم کردار اداکیا۔اُردو فلموں میں ننّھاکی جوڑی اکثرتمنّا بیگم کے ساتھ بنتی تھی۔ننّھا زیادہ ترباپ دادا اورنوکر کے کرداروں میں ہی جلوہ گر ہوتے تھے لیکن 1979ء میں انہیں ایک فلم ’’تیکھا پہلوان‘‘میں اہم کردار ملا جس کے بعد اسی سال ہدایتکار حیدر چودھری کی فلم ’’دبئی چلو‘‘ میں ننّھا نے مرکزی کردار کرکے سب کوچونکا دیا۔ یہ فلم ہر لحاظ سے کامیاب تھی اور اس نے فلمی صنعت میں ایک نئے رُجحان کو جنم دیا۔’’ دبئی چلو‘‘میں ننّھا کی علی اعجاز کے ساتھ جوڑی بے حد مقبول ہوئی تھی۔80ء کی دہائی میں سُلطان راہی ایکشن فلموں کے بے تاج بادشاہ تھے لیکن ان کے ساتھ علی اعجاز اورننّھا کی مزاحیہ جوڑی بھی ضرور ہوتی تھی۔ اس دور میں سلطان راہی کی انجمن،علی اعجاز کی ممتاز اور رانی جبکہ ننّھا کی زیادہ ترنازلی کے ساتھ جوڑی بنتی تھی۔لوگ کہتے ہیں کہ فلموں میں ایک ساتھ کام کرتے کرتے ننّھا نازلی کی زُلفوں کااسیر ہوگیا تھاحالانکہ وہ اس وقت اپنے کیریئر کے عروج پرتھا اورایک کے بعد ایک ہِٹ فلم دے رہا تھا۔وہ اس وقت فلم سازوں کی ضرورت تھا
اور وہ فلم سازوں پر نازلی کواپنے بالمقابل کاسٹ کروانے کے لئے بھی دباؤ ڈالتا تھاجس کا نتیجہ یہ تھا کہ نازلی اورننّھا اکثر ایک ساتھ فلموں میں جلوہ گر ہو ر ہے تھے۔کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تک توننّھا کامیابی کے گھوڑے پر سوار رہا،نازلی بھی اس سے محبّت کا دم بھرتی رہی مگر جیسے ہی ننّھا زوال آشنا ہوااور اس کی فلمیں فلاپ ہونے لگیں تو نازلی نے بھی ننّھا سے فاصلے پیدا کرنے شروع کردئیے۔اس پر بعض لوگوں کا تبصرہ یہ ہے کہ نازلی کودراصل ننّھا سے نہیں بلکہ اس کی کامیابیوں اورروپے پیسے میں دلچسپی تھی۔نازلی کی بے وفائی سے دلبرداشتہ ہوکرننھا نے مبیّنہ طور پر2 جون 1986ء کولاہور میں گولی مار کرخودکشی کرلی۔جن لوگوں نے وہ منظر دیکھا تھا وہ کہتے ہیں کہ ننّھاکے کمرے میں ہرطرف خون ہی خون بکھرا ہواتھا اور وہ کسی کرائم فلم کا کوئی خوف ناک سین لگ رہا تھا۔ننّھا نے حقیقت میں خودکشی کی؟یہ ابھی تک ایک راز ہے۔بعض لوگوں کاخیال یہ بھی ہے کہ ننّھا نے خودکشی نہیں کی بلکہ یہ ایک قتل تھااوراس کی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ننّھا اپنی ساری جائیداد اوربنک بیلنس نازلی کے نام کرنے پرتُلا ہواتھا اوراس پرننّھا کی فیملی میں شدید اِضطراب پایا جاتا تھا۔ فن کے سُلطان سلطان راہی کا قتل بھی کئی سال گزرنے کے باوجود ایک معمّہ ہی ہے۔سُلطان راہی نے703 سے زیادہ پنجابی اور100 سے زائد اُردو فلموں میں کام کیا تھا۔ایک وقت میں ان کی کئی کئی فلموں کے سیٹ لگے ہوتے تھے اوروہ ایک سیٹ سے نکل کر دوسرے سیٹ پر پہنچ جاتے تھے۔
انہیں160 سے زائدایوارڈز بھی مل چکے تھے۔مولا جٹ،شیر خان،چن وریام، بابل صدقے تیرے،شریف بدمعاش، بشیرا اوروحشی گجرسمیت انکی سُپرہٹ فلموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ان کی انجمن،آسیہ اورصائمہ کے ساتھ جوڑی بے حد کامیاب رہی تھی۔سُلطان راہی بڑے فنکار ہونے کیساتھ ساتھ بہت اچھّے انسان بھی تھے۔وہ پروڈیوسرز کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات اپنا معاوضہ بھی چھوڑدیتے تھے۔چھوٹے فنکاروں اورہُنرمندوں کی ذاتی طور پر مدد کیا کرتے تھے۔اس کے علاوہ انہوں نے باری سٹوڈیو میں ایک مسجد بھی بنوائی تھی ۔سُلطان راہی جب تک زندہ رہے،فلمی اسٹوڈیوز کی رونقیں بھی قائم رہیں8 اور ان کے جانے کے بعد سٹوڈیوز میں خاک اُڑ رہی ہے۔وہ9 جنوری 1996ء کو اسلام آباد سے واپس لاہور آرہے تھے کہ گوجرانوالہ کے قریب جی ٹی روڈ بائی پاس پران کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا۔رات کی تاریکی اور ویرانے کا فائدہ اُٹھا کرکچھ افراد نے ان پر فائرکھول دیا جس کے بعدسلطان راہی کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال لے جایاگیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے اوریہ عظیم فنکار ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ گیا۔ ان کے قاتل آج تک گرفتار نہیں ہو سکے۔منوّرظریف کے بعد سلطان راہی کی موت پنجابی فلموں کیلئے نہایت مُہلک ثابت ہوئی اورفلم انڈسٹری آج تک دوبارہ پیروں پرکھڑی نہیں ہوسکی۔ نادرہ کا شُمار بھی فلم انڈسٹری کی خوبرو اداکاراؤں میں ہوتاتھا۔وہ خوبصورتی کیساتھ ساتھ رقص پربھی مہارت رکھتی تھیں اور8 سال تک فلم انڈسٹری پر راج کرتی رہیں۔ نادرہ کا تعلّق بھی ’’اُس بازار‘‘ سے تھا اور وہ فلموں کیساتھ ساتھ مُجرے بھی کیاکرتی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک مُجرے کے52 لاکھ روپے لئے تھے۔
اسی طرح اداکارہ نیناں نے بھی ایک مُجرے کے 56 لاکھ روپے لئے تھے۔ یہ دونوں اداکارائیں پُراسرار طور پر قتل ہوئیں اور قاتلوں کا سراغ نہیں لگ سکا۔کہاجاتا ہے کہ نادرہ نے اپنے شوہر کیساتھ مل کر پراپرٹی کا کاروبارشروع کیا تھا جس پردونوں کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ 1995ء میں نادرہ کواس وقت فائرنگ کرکے قتل کیا گیا جب وہ ایک ریستوران سے باہر نکل رہی تھیں۔قتل کا شک ان کے شوہر پر کیا گیا اورشامل تفتیش بھی کیا گیا مگر کوئی نتیجہ نہ نکل سکا ۔نادرہ کی موت سے فلم سازوں کے لاکھوں روپے ڈوب گئے کیونکہ کئی فلمیں سیٹ پر تھیں۔نادرہ کا فلمی کیریئر اگرچہ زیادہ طویل نہیں تھا لیکن اس مُختصر عرصے میں فلمی صنعت پرگہرے نقوش چھوڑے تھے۔ پشتوفلموں کی پہلی ہیروئن یاسمین خان کا قتل بھی ایک رازہے۔وہ 1950ء کوپشاور میں پیدا ہوئیں لیکن60ء کی دہائی کے اوائل میں کراچی مُنتقل ہوگئیں۔جب کراچی میں تجرباتی بنیادوں پرپہلی پشتو فلم ’’یوسف خان شیربانو‘‘ بنی تو یاسمین خان کوبدرمنیر کے بالمقابل مرکزی کردار کے لئے کاسٹ کیا گیا۔ یہ فلم 1970ء میں ریلیز ہوئی توسُپرہٹ ثابت ہوئی اوراس نے دونوں پر کامیابیوں کے در واکردئیے۔ 1975ء میں ریلیزہونیوالی اُردو فلم ’’دُلہن ایک رات کی‘‘نے یاسمین خان کو راتوں رات سُپرسٹارزکی صف میں لا کھڑا کیا۔ یاسمین خان نے پنجابی فلم میں بھی کام کیا مگر زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں کیونکہ وہ جسامت اورچہرے مُہرے کے لحاظ سے پشتوفلموں کے لئے زیادہ موزوں تھیں۔جب پشتو فلموں میں فحاشی کا طوفان آیا تو یاسمین خان نے خود کو پشتو فلموں سے کچھ دور کرلیا۔
یاسمین خان کی پہلی شادی فلم سٹار ساقی سے ہوئی تھی جوطلاق پرمُنتج ہوئی جس کے بعدیاسمین نے ایک سٹوڈیواونر سے شادی کی لیکن یہ بھی زیادہ نہ چل سکی۔اس کے بعد یاسمین خان ایک کھاتے پیتے گھرانے کے چشم وچراغ عارف سے شادی کرکے پشاور منتقل ہوگئیں لیکن اس کے گھر والوں نے یاسمین کو بہو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔لوگ کہتے ہیں کہ عارف جوئے کا عادی اورپہلے سے شادی شُدہ تھا۔یاسمین خان نے عارف کو سمجھانے کی کوشش کی تواس نے مبینہ طور پر15 اپریل 1999ء کو یاسمین خان کوقتل کرکے دروازہ باہر سے بند کردیا۔اس قتل سے دو روز بعد پردہ اُٹھا۔عارف نے بعد ازاں تیسری شادی کرنے کی کوشش کی اوراسی دوران قتل ہوگیالیکن اس کے والدین نے لاش بھی وصول کرنے سے انکار کر دیا تھااوراس کے دوستوں نے ہی تدفین کی تھی۔ اداکارہ عندلیب قتل تو نہیں ہوئیں لیکن خوفناک حادثے کاشکارضرور ہوئیں۔انہیں ہدایتکارشہزاد رفیق نے اپنی فلم ’’گھونگھٹ‘‘میں متعارف کروایا تھا جو1996ء میں ریلیز ہوئی تھی۔سیّد نور اس کے ہدایتکار تھے اور یہ سُپرہٹ فلم تھی۔اخباری خبروں کے مطابق عندلیب کے سیالکوٹ کے ایک صنعتکارکیساتھ مراسم تھے اوربعض لوگوں کاخیال ہے کہ جب عندلیب نے آنکھیں پھیریں توچہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا۔پلاسٹک سرجری کے بعد عندلیب شوبزچھوڑ کرمعمول کی ازدواجی زندگی گزار رہی ہیں ۔ ماروی کا تعلّق سندھ سے تھااوراس نے اگرچہ تین چار فلموں میں ہی اداکاری کی لیکن فلم بینوں کے ذہنوں پر انمٹ نقوش ضرور چھوڑے تھے۔فیصل قریشی کیساتھ فلم ’’ماروی‘‘ان کی یادگارفلم تھی۔ماروی کو25 اگست 1998ء کوطارق روڈ کراچیکے سگنل پر قتل کردیاگیا تھا۔اس وقت وہ اکیلی گاڑی چلا رہی تھی اورقتل کے بعد کوئی پاس جانے کو تیار نہ تھا۔پشتو گلوکارہ غزالہ جاوید کو اس کے شوہر نے قتل کیاجو بعد میں پکڑا بھی گیا تھا۔اداکارہ انجمن کے شوہر مبین ملک بھی قتل ہوئے۔یہ ہمارے ملک کا المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ یہاں قاتل اوّل تو گرفتار نہیں ہوتے اور اگر پکڑے جاتے ہیں توکمزور ثبوتوں کی بنیاد پر چھوٹ جاتے ہیں۔لوگ منتظر ہیں کہ ان فنکاروں کا لہو کب بولے گا۔اردو فلموں کے معروف ولن شاہنواز بھی حیدر آباد میں قتل ہوئے۔ڈائریکٹر خلیل قیصر کا قتل بھی آج تک معمہ بنا ہوا ہے ان کو رات کے کسی پہر سمن آباد میں ان کی رہائشگاہ پر نامعلوم شخص نے چھریاں مار کر قتل کردیا تھا۔ دوروز قبل دنیا سے رخصت ہونے والی فلم اور سٹیج کی اداکارہ وپرفارمر سنگم رانا کی موت کے حوالے سے متضاد خبریں سامنے آرہی ہیں بظاہر یہی معلوم ہوا ہے کہ سنگم رانا نے گھریلو لڑائی جھگڑے کی وجہ سے اپنی جان دے دی ہے لیکن ذرائع یہ کہہ رہے کہ انہوں نے خودکشی نہیں کی بلکہ ان کو قتل کیا گیا ہے ان کی خالہ زاد بہن آمنہ کو پولیس نے سنگم رانا کی والدہ کی جانب سے درج کراوائی جانے والی ایف آئی آر میں نامزد کئے جانے کے بعد حراست میں لیا ہے ذرائع کا یہ بھی کہناہے کہ سنگم رانا کے ایسے حالات نہیں تھے کہ وہ خود کشی کرتیں ۔وہ قتل ہی ہوئی ہیں اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔