counter easy hit

یہ تو بڑی جلدی ایکسپوز ہوگئے۔۔!! خلیل الرحمان قمر نے کس طرح پاکستانی قوم کو بیوقوف بنا ڈالا؟ نامور کالم نگار علی احمد ڈھلوں نے تصویر کا دوسرا رُخ پیش کر دیا

لاہور( نیوز ڈیسک) نامور کالم نگار علی احمد ڈھلوں کا کہنا ہے کہ قمر صاحب کی شخصیت اور خیالات کو دیکھ کر دھوکہ کھا گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ خلیل قمر جیسے لوگ، ایسا رویہ رکھنے والے ہمارے پورے اخلاقی سٹینڈ کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اگر اس طرح کی بدزبانی کو دلیل بنانا ہے تو پھر عورت مارچ پر اعتراض کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اپنے تازہ ترین کالم میں علی احمد ڈھلوں لکھتے ہیں کہ “مجھے اس چیز کا خاصا شوق اور تجسس ہے کہ میں جان سکوں کہ ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں…. اسے آپ بیماری کہہ لیں، احساس کمتری کہہ لیں یا مایوسی، مگر یہ ”بیماری“ مجھے لگ چکی ہے،کیوں کہ زیادہ تر ہمارا شمار آخری نمبر والی اقوام میں ہی ہوتا ہے، اس لیے ڈرتے ڈرتے اس بار بھی ہم نے سرچ کر ہی لیا کہ دنیا میں سنجیدگی، سمجھداری اور رائے دہی میں ہمارا نمبر کونسا ہے، جب ذرا تحقیق آگے بڑھائی تو ہم یہ دیکھ کر بھی شرمندہ سے ہوگئے کہ اس رینکنگ میں بھی ہم انتہائی پیچھے یعنی 78ویں نمبر پر ہیں ۔ ویسے ہمیں اس نمبر میں تو پیچھے نہیں ہونا چاہیے تھا کیوں کہ جتنی” سمجھداری“ کی باتیں ہم پاکستانی کرتے ہیں شاید ہی دنیا کی کوئی قوم کرتی ہوگی، بیٹھے بیٹھے ہم لوگ ”چوبرجی“ کو نشئیوں سمیت ”یاد گار پاکستان“ کے قریب شفٹ بھی کر آتے ہیں اور ایک اینٹ بھی نہیں توڑنی پڑتی۔ اور پھر ہر محلے میں ایک ”چوراہہ“ ہے جہاں ”دانشور“ اکٹھے ہوکر ملکی حالات میں سیر حاصل گفتگو کر کے ٹائم پاس کررہے ہوتے ہیں اور پھر اب تو ٹچ موبائل کا دور ہے ۔اب تو ہر چیز ہماری انگلیوں پر ناچتی ہے، اس لیے ہم دنیا سے جیسی مرضی معلومات اکٹھی کرکے سقراط سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ، نیوٹن سے بھی بڑی بڑی باتیں کرنے لگتے ہیں اور افلاطون جیسے فلاسفر کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ اور پھر ہم جیسے لوگوں کے بارے میں ہی مشہور ہے کہ یہ کسی غیر مرعی چیز یا غیر اہم چیز جو دیکھنے میں چمک رکھتی ہو اُس سے ایسے متاثر ہوتے ہیں کہ اسی کے قصیدے پڑھنے شروع کردیتے ہیں، اُس کے بارے میں بغیر سوچے سمجھے دلائل دینے پر اترآتے ہیں تبھی تو ہمارے
Behavior
کی وجہ سے ہمیں دنیا
Strange Nation
کے طور پر بھی جانتی ہے۔ تبھی تو ہماری کرکٹ ٹیم بھی دنیا بھر میں
Unpredictable
جاتی ہے۔ اس کی بڑی
مثالیں آپ سیاستدانوں سے لے لیں جیسے یہاں جنرل ضیاءالحق آیا ، ہم نے ڈکٹیٹر کو ویلکم کیا، لوگ بہت خوش ہوئے کہ اب یہاں اسلامی نظام لایا جائے گا، ہر چیز سسٹم کے مطابق چلے گی، غریب آدمی خوشحال ہوگا…. لیکن پھر کیا ہوا؟لوگ مایوس ہوگئے۔ پھر یہاں 1986ءمیں خود ساختہ جلاوطنی کے بعد بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں، فقیدالمثال استقبال کیا گیا، محترمہ میں لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو کی جھلک دکھائی دی، لیکن مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔ پھر جنرل پرویز مشرف صاحب تشریف لائے، مٹھائیاں تقسیم ہوئیں لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ اور چلتے چلتے حالیہ سالوں میں ”منتوں مرادوں“ کے بعد تحریک انصاف کی حکومت لائی گئی ، عوام نے بہت سی اُمیدیں وابستہ کرلیں،سوچا نئی قیادت ہے ، ٹیم بھی اچھی ہوگی مگر فی الوقت ہمیں مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑ ا۔ اور یہ صرف سیاست ہی میں نہیں بلکہ ہر جگہ ہو رہا ہے۔ جیسے انصاف کرنے والے بھی یہاں آتے رہے، چیف جسٹس افتخار چوہدری آئے ایسے لگا جیسے اب ہماری عدالتیں بھی مغرب کے نظام انصاف کی طرح فعال ہو جائیں گی مگر کچھ حاصل نہ ہوا، بلکہ اُن کے بیٹے کے شاہانہ اخراجات اور غیر قانونی حرکات پر اُن کا چپ سادھے رہنا بہت سے سوال چھوڑ گیا، پھر اب ایک اور چیف جسٹس کے بار ے میں ہماری اچھی رائے قائم ہوئی لیکن ان کے بیٹے کی شاہانہ شادی دیکھ کر ایک بار پھر دل بجھ گیا۔ پھر ایک سابقہ دور کے آرمی چیف کو عوام نے پسند کیا وہ سعودی عرب کے ہو کر رہ گئے۔ پھر کچھ کرکٹرز اور کھلاڑی ہمارے لیے رول ماڈل بنے مگر پتہ چلا کہ انہیں جوا کھیلنے کے جرم میں سزا مل گئی ہے۔ بقول شاعر ہمارے لیے بہاروں کے موسم ہمیشہ مختصر ہی رہے۔ ؎بدلتے موسم پہ اپنی اُمیدیں نہ رکھنا/دن بہاروں کے بڑے مختصر ہوا کرتے ہیں۔ اب جبکہ حال ہی میں ”میرے پاس تم ہو“ سے شہرت پانے والے مصنف خلیل الرحمن قمر کے بارے میں ہم نے خاصی اُمیدیں وابستہ کیں، سوچا نئی نسل کو ایک اچھا لکھنے والا اصلاح پسند رائٹر مل گیا ہے، ہم کیا پورے پاکستان بلکہ جہاں جہاں بھی اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے سبھی اُن کے الفاظ کے چناﺅ، ڈائیلاگ اور موقع کی مناسبت سے بات کہنے کے قدر دان ہوگئے تھے۔لیکن انہوں نے بھی ہمیں مایوس کر دیا، وہ ایک ٹی وی پروگرام میں اپنا
Temperament
گئے اور مہمان خاتون ماروی سرمد کے بارے میں وہ زبان استعمال کرگئے کہ اُس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، یہی نہیں بلکہ اگلے دن مختلف چینلزپر بیٹھ کر انہوں نے وہی رویہ دہرایا، گویا وہ بھی دل سے اتر گئے۔ یقین مانیں ہم تو خلیل الرحمن قمر کی باتوں، جذبات اور اُن کے ٹیلنٹ ، جذبات کی وجہ سے انہیں پوجنے کی حدتک محبت کرنے لگ گئے تھے۔ہمارے آئیڈیل بنتے جا رہے تھے، میں نے تو گزشتہ دنوں 21جنوری کو جب سب کو ”میرے پاس تم ہو“ کی آخری قسط کا انتظار تھا تو اس وقت اُن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر یہ الفاظ شیئر کیے تھے کہ خیل الرحمن قمر
What a man،
لیکن یہ تو بہت جلد ہی ایکسپوز ہوگئے۔ میرے خیال میں مذکورہ ڈرامہ کے بعد جتنی شہرت انہیں حاصل ہوئی شاید ہی عصر حاضر کے کسی مصنف کو ملی ہو۔ حالانکہ ڈرامہ کمرشل تھا لیکن اُس نے ایک اچھی چیز دکھائی تھی کہ جب ایک عورت بے وفائی کرتی ہے اور وہ رنگے ہاتھوں پکڑی جاتی ہے تو شوہر اُس کو مہذب طریقے سے چھوڑ دیتا ہے، یہ ایک چیز تھی جسے خاصا پسند کیاگیا ۔ الغرض اس ڈرامے کے بعد عام پاکستانی کا قمر صاحب کے بارے میں اچھا تاثر قائم ہو چکا تھا مگر انہوں نے بھی یہ اُمید چند دن سے زیادہ نہ چلنے دی اور کل کے پروگرام میں تو انہوں نے دکھی قوم کو مزید غمزدہ کر دیا۔ میں نے وہ کلپ بیس مرتبہ دیکھا اور بیس مرتبہ ہی میری تکلیف میں اضافہ ہوا۔ ایک وقت کے لیے تو موصوف مجھے لگے ہی نہیں کہ یہ مصنف ہیں بلکہ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی انتہا پسند مذہبی جماعت کے رہنماہیں ۔بہرکیف میں اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ پروگرام میں ماروی سرمد کے ساتھ اختلاف رکھنے کا پورا حق ہے لیکن آپ کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ایک عورت بھی ہے ۔ اور انہوں نے جس انداز میں ماروی کی تضحیک کی وہ کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں ہے۔اور ویسے بھی جس شخص کو عورت کی عزت کرنا نہیں آتی، جسے اپنے حواس پر قابو پانا نہیں آتا وہ اچھا انسان کیسے ہو سکتا ہے؟میرے خیال میں جن الفاظ کا چناﺅ انہوں نے کیا ، ایک پڑھا لکھا شخص ایسا نہیں کر سکتا۔ انہوں نے نہایت گھٹیا زبان استعمال کی، ان کے لہجے کی رعونت اور فرعونت دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ کوئی آدمی اس قدر بدتمیز اور دریدہ ذہن بھی ہوسکتا ہے۔اور رہی بات ”میرا جسم میری مرضی “ کے نعرے کی تو اس حوالے سے بہت سے دلائل حق میں اور بہت سے خلاف بھی دیے جاسکتے ہیں ۔ لڑائی میں آواز اونچی کرنا یا گالم گلوچ دینا لڑائی ہارنے کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذاٹی وی پر ایک خاتون کو چاہے وہ جس قدر شور مچا رہی ہو، خاموش ہونے کو تیار نہ ہو، تب بھی بدزبانی اورگھٹیا ذاتی حملے کا کوئی جواز نہیں۔ ٹاک شوز میں یہ عمومی منفی رواج ہے کہ اپنی بات کر کے دوسرے کی بات میں بولتے رہنا، شور مچانا، اس کے جواب میں سو طریقے سے بات کی جا سکتی تھی، خلیل الرحمن قمر نے جو جملے بولے ، وہ ان کے مائنڈ سیٹ، ناقص تربیت اور بازاری مزاج کی نشاندہی کرتا ہے۔ ”میں تمہارے جسم پر تھوکتا بھی نہیں “جیسا جملہ کہنے سے پہلے زبان پر فالج گر جاتا تو بہتر ہوتا۔ہمارا مذہب اسلام بھی اس قسم کے رویے کی اجازت نہیں دیتا، آپ سے منسوب بہت سی احادیث ہیں جن میں آپ صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں، مشہور روایت ہے کہ ایک بار ایک یہودی سیدنا ابوبکرؓ سے بدزبانی کر رہا تھا، آپ برداشت کا مظاہرہ کر کے خاموش تھے،آپ بھی وہیں پر موجود تھے، کچھ دیر کے بعد سیدنا صدیق اکبرؓ کی برداشت جواب دے گئی اور انہوں نے اسی لب ولہجے میں جواب دیا۔ اس پر رسول اللہ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا، آپ ناخوش ہو کر چلے گئے۔
سیدنا صدیق اکبرؓ نے یہ بھانپ لیا اور فوری طور پر جا کر رسول اللہ سے معذرت کرکے ماجرا پوچھا۔ آپ نے فرمایاجس کا مفہوم ہے کہ جب تک تم خاموش تھے، اللہ کا ایک فرشتہ اس کی بدزبانی کا جواب دے رہا تھا، جب تم نے اسی انداز میں جواب دیا تو وہ اللہ کا فرشتہ رخصت ہوگیا۔ یوں جناب سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اور آپ کے ذریعے پوری امت کو یہ بات واضح کر دی گئی کہ بدزبانی کے جواب میں بھی بدزبانی جائز نہیں، قطعی جائز نہیں۔ایک حکایت ملاحظہ فرمائیں حضرت سلیمان ؑ کے پاس ایک چڑیا ایک شکایت لے کر آگئی کہ فلاں شخص نے اُسے چھڑی سے مارا ہے، جب اُس شخص کو بلا کر پوچھا گیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ تو شخص نے بتایا کہ اس نے میرا اناج کھایا ہے تو آپؑ نے چڑیا سے دریافت کیا کہ ایسا کیوں کیا؟ تو چڑیا نے کہا کہ میں نے تو اس کے حلیے کو دیکھ کر ایسا گمان کیا تھا کہ یہ خدا ترس آدمی ہے اس لیے کچھ نہیں کہے گایعنی میں اس کے حلیے سے دھوکہ کھا گئی، افسوس کہ ہم بھی بالکل اسی طرح قمر صاحب کی شخصیت اور خیالات کو دیکھ کر دھوکہ کھا گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ خلیل قمر جیسے لوگ، ایسا رویہ رکھنے والے ہمارے پورے اخلاقی سٹینڈ کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اگر اس طرح کی بدزبانی کو دلیل بنانا ہے تو پھر عورت مارچ پر اعتراض کیسے کیا جا سکتا ہے؟میں آخر میں قمر صاحب سے ایک ہی بات کروں گا کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے معافی مانگ لیں اس کے علاوہ کوئی چارا ممکن نہیں !غلطی کرنا بڑی بات نہیں ہوتی غلطی کو تسلیم کرنا بڑی بات اور اعلیٰ درجے کا وصف ہے، اُمید ہے کہ وہ ہر لمحے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے!”

KHALIL UR RAHMAN EXPOSED IN JUST SHOR PERIOD OF TIME, COLUMNIST NIGAR ALI AHMED DHALOON PRESENTED OTHER PART OF THE PICTURE

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website