ایک باب کا خاتمہ، بنگلہ دیش کا آخری آرمینیائی بھی چل بسا
بنگلہ دیش کا آخری آرمینیائی مسیحی مائیکل جوزف مارٹن 89 برس کی عمر میں انتقال کر گیا ہے۔ یوں اس جنوب ایشیائی ملک میں آرمینیائی مسیحی کمیونٹی کی تین سو سالہ تاریخ بھی ایک تاریخ بن گئی ہے۔
ایک وقت تھا، جب ڈھاکا میں طاقتور مسیحی کمیونٹی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں تھی۔ اس کمیونٹی میں آرمینیائی مسیحیوں کی تعداد نمایاں تھی۔ موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں آرمینیائی ‘ہولی ریزورکیشن چرچ‘ کی بنیاد سن 1781 میں رکھی گئی تھی۔ اسے اس شہر میں آرمینیائی کمیونٹی کا دل قرار دیا جاتا تھا۔
مائیکل جوزف مارٹن کئی عشروں تک اس چرچ کے مجاور کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ تاہم ان کے انتقال کے بعد اس چرچ کی نگرانی کرنے والا اب کوئی آرمینیائی نہیں ہو گا کیونکہ بنگلہ دیش میں موجود وہ آخری آرمینیائی باشندے تھے۔ بیرون ملک سے فعال اس چرچ کے وارڈن آرمین ارسلانین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ڈھاکا میں اس چرچ کے احیا میں مائیکل نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
آرمین نے نو مئی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا کہ مائیکل کا انتقال گيارہ اپريل کو ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مائیکل کی ذاتی کوششوں اور قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں تھا کہ ڈھاکا میں آرمینیائی چرچ کی تاریخ آج کے دن تک برقرار رہتی۔
ڈھاکا میں آرمینیائی باشندے سولہویں صدی میں آئے تھے، تب اس شہر میں اس اقلیتی کمیونٹی کے سینکڑوں افراد کئی اہم عہدوں پر فائز بھی ہوئے۔ ان میں کئی تو اہم تاجر بنے، وکلاء کے طور پر کام کرتے رہے اور کئی اہم اعلیٰ حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔
مائیکل سن 1942 میں ڈھاکا پہنچے تھے۔ اس سے قبل ان کے والدین بھی کئی عشروں تک اس ریجن میں قیام پذیر رہ چکے تھے۔ مائیکل نے ابتدا میں ایک کامیاب تاجر کی حيثيت سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے ڈھاکا کے ‘ہولی ریزورکیشن چرچ‘ کی نگرانی سنبھالی اور اس سے متصل قبرستان کی دیکھ بھال بھی شروع کی۔ اسی قبرستان میں ان کی اہلیہ بھی دفن ہیں، جو سن دو ہزار چھ میں انتقال کر گئی تھيں۔ اس قبرستان میں کم ازکم چار سو قبریں ہیں۔
ڈھاکا میں اقلیتی کمیونٹی کے ساتھ برتاؤ میں اس وقت تبدیلی آنا شروع ہوئی، جب سن 1947 تقسیم ہند کے نتیجے میں برطانوی اس خطے سے واپس گئے۔ سن انیس سو اکہتر میں بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعد حالات مزید بدل گئے۔ اسی وجہ سے دیگر یورپی اقلیتی کمیونٹی کی طرح مائیکل کی اولاد بھی ڈھاکا کو خیر باد کہہ گئی تھی۔
مائیکل نے سن 2009 میں اے ایف پی کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں فکر ہے کہ ان کے بعد اس چرچ کا انتظام کون سنبھالے گا، ”جب میں مر جاؤں گا تو کینیڈا میں مقیم میری تین بیٹیوں میں سے کوئی شاید واپس آکر ڈھاکا میں آرمینیائی موجودگی کو برقرار رکھے۔‘‘ تاہم ابھی تک اس بارے میں کوئی مصدقہ خبر موصول نہیں ہو سکی ہے۔ اس چرچ کا موجودہ آرمینیائی وارڈن ہر دو تین ماہ بعد ڈھاکا کے اس چرچ کا دورہ کرتا ہے۔