اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکی صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ سابق صدر ٹرمپ کی دوحہ امن ڈیل پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ امن ڈیل کی شرائط پر کس حد تک عمل کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سکیورٹی کے مشیر جیک سولیوان نے اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو میں یہ بھی واضح کیا کہ اس بات کا جامع تجزیہ ضروری ہے کہ سابق امریکی حکومت اور طالبان کے مابین طے پانے والی اس ڈیل کی نکات کیا ہیں اور ان پر عمل درآمد کس طرح ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سولیوان نے واضح کیا ہے کہ فروری سن دو ہزار بیس میں امریکا اور طالبان کے مابین دوحہ امن ڈیل پر نظر ثانی کے علاوہ اس بات کا تجزیہ بھی کیا جائے گا کہ اس معاہدے کے بعد طالبان تشدد میں کتنی کمی لائے ہیں، اس گروہ نے دیگر انتہا پسند گروپوں سے اپنے رابطے کس حد تک ختم کیے ہیں اور اس نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی خاطر کیا اقدامات کیے ہیں۔ سولیوان کے مطابق اس ڈیل کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان اس ڈیل کے تحت طے پائے جانے والے سبھی نکات کا احترام کریں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ سفارت کار نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان میں گزشتہ بیس سالوں سے جاری جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کی وطن واپسی چاہتے ہیں۔اس وقت افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار ہے، جو سن دو ہزار ایک میں افغان جنگ شروع ہونے کے بعد سے وہاں متعین امریکی فوجیوں کی کم ترین تعداد ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امن ڈیل کے تحت عہد کیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کو واپس لے آئے گی۔ دریں اثناء افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ گزشتہ برس انتیس فروری کو طے پانے والی دوحہ امن ڈیل کے تحت افغان طالبان نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر انتہا پسند گروپوں کو اپنی کارروائیوں سے روکیں گے، اپنے حملوں کو ختم کریں گے اور کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں گے۔
اس امن ڈیل کے تحت البتہ طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات کا سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا ہے۔ ادھر افغان صدر اشرف غنی کے مشیر وحید عمر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے حملوں میں کمی نہیں کی ہے بلکہ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ کابل کا یہ الزام بھی ہے کہ طالبان قومی سطح پر امن مذاکرات شروع کرنے میں بھی ناکام رہیں ہیں۔