پاکستان میں چینی سفارت خانے نے چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق امریکی سفارت کار کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے پرانے بیانات کی کڑی قرار دیا ہے۔ چینی سفارت خانے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سی پیک منصوبوں کے تحت دیے گئے قرض پاکستان پر بوجھ نہیں ہیں۔ بیجنگ اسلام آباد کو ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مجبور نہیں کرے گا۔ چینی سفارت خانے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا بیان بے بنیاد اور پاک، چین تعلقات کو بدنام کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔
امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز نے دو روز قبل اپنی ایک نیوز کانفرنس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کی شفافیت پر ایک بار پھر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ چین کرونا کے سبب پاکستان کو قرضوں کی مد میں چھوٹ دے یا ان قرضوں کی شرائط کا ازسر نو تعین کیا جائے۔ چینی سفارت خانے کے مطابق سی پیک چین پاکستان کے درمیان تعاون کا اہم منصوبہ ہے اور اس منصوبے میں باہمی مفاد اور شفافیت کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ سی پیک کے تمام منصوبے مشاورت اور ہم آہنگی کے ساتھ مکمل کیے جاتے ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے آغاز سے اب تک 25 ارب ڈالرز کی براہ راست سرمایہ کاری ہو چکی ہے اس کے نتیجے میں پاکستان میں 75 ہزار افراد کو روزگار ملا ہے۔ سی پیک منصوبوں میں مقامی افراد کے روزگار کو یقینی بنایا گیا ہے اور سی پیک پاکستان معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
چینی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے تحت پاکستان کو دیے گئے قرضوں کا حجم صرف پانچ ارب 80 کروڑ ڈالر ہے۔ یہ پاکستان کے مجموعی غیر ملکی قرضوں کا صرف پانچ فی صد ہیں۔ ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے چین پاکستان پر کبھی دباؤ نہیں ڈالے گا۔ خیال رہے کہ حال ہی میں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں جی 20 ملکوں نے دنیا کے غریب ملکوں کو قرضوں میں ریلیف دینے کی منظوری دی ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان کو بھی ریلیف دلوانے میں کردار ادا کیا ہے۔
چینی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے کے چین اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چین نے پاکستان کو اس وبا سے نمٹنے کے لیے پانچ کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے طبی آلات اورسامان عطیہ کیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکہ نے چین پاکستان راہداری منصوبوں سے جڑی چینی سرمایہ کار ی اور قرضوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل بھی ایلس ویلز سی پیک منصوبوں پر اعترض اٹھا چکی ہیں۔ لیکن ان کی طرف سے ایک بار پھر سی پیک منصوبوں کی شفافیت پر اعتراض کو سیاسی اور سفارتی حلقے اہم قرار دے رہے ہیں۔