اسلام آباد(یس اردو نیوز) چینی صدر شی جن پنگ کی طرف سے اپنی فوج کو تمام ممکنہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کے حکم کو بھارت اور چین کے درمیان فوجی ٹکراو کے بڑھتے خدشات کے مد نظرغیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر دفاع، قومی سلامتی کے مشیر اور تینوں افواج کے سربراہوں کے ساتھ موجودہ صورت حال کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔
صدر شی جن پنگ، جو 20 لاکھ ملکی افواج کے سربراہ بھی ہیں، نے چینی افواج کے اعلی افسران کے ایک وفد کوخطاب کرتے ہوئے حکم دیا کہ وہ جنگ کے لیے مضبوط تیاری شروع کردیں اور فو ج سے کہا کہ وہ انتہائی بدترین، پیچیدہ اور پریشان کن حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے، ان سے فوراً اورموثر انداز میں نمٹنے کے لیے خود کو تیار رکھیں۔
چینی خبر رساں ایجنسی کے مطابق صدرشی جن پنگ نے یوں تو کسی مخصوص خطرے کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی بھارت کا نام لیا لیکن یہ بیان چونکہ ایک ایسے وقت آیا ہے جب حقیقی کنٹرول لائن پر بھارت او رچین کی فوجوں کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اس لیے اسے غیر معمولی قرار دیا جارہا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے لداخ اور شمالی سکم میں حقیقی کنٹرول لائن پربھارت اور چین نے اپنی اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے۔ پچھلے دنوں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان ہاتھا پائی اور مارپیٹ کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ان جھڑپوں میں دونوں ملکوں کے تقریباً ایک سو جوان زخمی ہوچکے ہیں۔ چینی فوج کے ذریعہ بھارتی نیم فوجی دستے کے جوانوں کو حراست میں لینے کی خبریں بھی آئی تھیں لیکن بھارت نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔ بھارتی میڈیا نے سیٹلائٹ تصویروں کے ثبوت کے ساتھ دعوی کیا ہے کہ چین لداخ کے قریب ایک ایئر بیس کی توسیع کررہا ہے اور اس نے وہاں جنگی طیارے بھی تعینات کردیے ہیں۔ان حالات کے مدنظر وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل 26 مئی کو ایک اعلی سطحی میٹنگ کی۔ جس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور تینوں افواج کے سربراہوں نے وزیر اعظم کو حقیقی کنٹرول لائن پر صورت حال کے حوالے سے بریف کیا۔ جنرل بپن راوت نے لداخ میں صورت حال کو سنبھالنے کے لیے فوجی مشوروں سے بھی وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔ اس سے قبل وزیر اعظم مودی نے خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرنگلا سے اور وزیر دفاع نے فوج کے تینوں سربراہوں کے ساتھ بھی الگ سے تبادلہ خیال کیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں ہونے والی میٹنگ میں بنیادی طور پر یہ طے پایا کہ حقیقی کنٹرول لائن پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھارت باہمی احترام اور بات چیت کے میکنزم کو اپنانے کے حق میں ہے تاہم متعلقہ ذمہ داروں کو کسی بھی صورت حال کے لیے تیار رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔
دریں اثنا دہلی میں آج آرمی کمانڈروں کی سشماہی میٹنگ شروع ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلی فوجی افسران کی اس تین روزہ کانفرنس میں بھارت اورچین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی پر یقینی طور پر غور و خوض کیا جائے گا۔
مودی حکومت کے ایک سینئر وزیر کا کہنا تھا کہ چین نے اپنے میڈیا کے ذریعہ بھارت پر نفسیاتی دباو ڈالنا شروع کردیا ہے اور اس حوالے سے بھارت کے ساتھ اسی علاقے میں 1962میں ہونے والی جنگ کی یاد دلارہا ہے۔ بھارتی وزیر کا تاہم کہنا تھا ”یہ 1962 نہیں بلکہ 2020 ہے اور اس وقت ملک کی قیادت نریندر مودی کے ہاتھوں میں ہے۔”دوسری طرف اپوزیشن کانگریس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ موجودہ صورت حال سے عوام کو آگاہ کرے۔ کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے کہا”حکومت بھارتی عوام کو بتائے کے سرحد پر آخر کیا ہورہا ہے؟ ہمیں مختلف طرح کی خبریں مل رہی ہیں۔ اس معاملے میں شفافیت ضروری ہے تاکہ عوام کو حقیقی صورت حال کا علم ہوسکے۔”
ادھر مسئلے کو حل کرنے کے لیے سفارتی سطح پر بھی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ بھارت نے ‘ورکنگ میکانزم‘ کو سرگرم کردیا ہے۔ یہ میکانزم 2012 میں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں قائم کیا گیا تھا اور اس پر بیجنگ میں اس وقت کے بھارتی سفیر او رموجودہ وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے دستخط کیے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے موجودہ بحران جلد ختم ہوجائے لیکن چونکہ حقیقی کنٹرول لائن پرمختلف مقامات کے سلسلے میں کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہے اس لیے مستقبل میں بھی اسی طرح کے جھگڑے اور بحران پیدا ہوتے رہیں گے لہذا اس تنازعہ کو جلد از جلد حل کرنا انتہائی ضروری ہے۔