اسلام آباد(یس اردو نیوز) افغانستان میں ایک ٹیلی ویژن چینل کا رپورٹر پیشہ ورانہ ذمہ داریو ں کے دوران بم دھماکے کا شکار ہوگیا۔ افسوسناک واقعہ تب پیش آیا جب افغان دارالحکومت کابل میں سڑک کنارے نصب ایک بم پھٹ اچانک پھٹ گیا۔ اور ٹی وی چینل کا رپورٹر اس کی زد میں آگیا۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے، جب افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے عبداللہ عبداللہ کو اعلیٰ مذاکرات کار مقرر کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہفتے کے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے 15 ملازمین سے بھری بس سڑک کنارے نصب ایک بم سے ٹکرا گئی۔ افغان حکومت نے اس بم حملے کو ’بزدلانہ کارروائی‘ قرار دیا ہے۔
افغانستان میں مقامی میڈیا کے عملے کی بس پر بم حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک صحافی سمیت دو افراد جاں بحق ہو گئے۔ طالبان نے حملے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق افغانستان میں امن ایک خواب بننے لگا، امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والی امن ڈیل کے باوجود شورش زدہ ملک میں لڑائی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں مقامی میڈیا کے عملے کی بس پر بم حملہ ہوا، حملہ آوروں نے مقناطیس کے ذریعہ بم میڈیا عملے کی بس سے چپکا دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں افغان نجی ٹی وی کے کا ایک صحافی ڈرائیور سمیت جاں بحق ہو گیا جبکہ چھ زخمی ہو گئے۔
افغان خبر رساں ادارے کے مطابق جاں بحق ہونے والا صحافی نجی ٹی وی میں رپورٹر تھا، اس کا نام ضمیر امیری ہے جبکہ جاں بحق ہونے والے ڈرائیور کا نام شفیق ہے۔
مقامی ٹی وی کے ایڈیٹر انچیف کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والے چھ افراد میں سے دو افراد کی حالت تشویشناک ہے، جن کو فوری طور پر کابل ایمرجنسی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں پر ان کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔
افغان خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ افغان طالبان نے نہیں کیا ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکی فوجیوں کا انخلا طے شدہ وقت سے پہلے ہی جاری ہے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب 3 روز کی تاریخی جنگ بندی کے بعد افغانستان کی طویل جنگ کے اگلے مرحلے سے متعلق سوال اٹھ رہے ہیں۔
طالبان کی جانب سے عیدالفطر کے موقع پر اعلان کردہ جنگ بندی 26 مئی کی رات کو ختم ہوگئی تھی جس کے بعد افغان شہری بے چین تھے کہ اس میں توسیع ہوگی یا دوبارہ جھڑپوں کا آغاز ہوگا۔
جنگ بندی کے خاتمے کے بعد بھی تشدد کی سطح کم رہی لیکن پولیس کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے افغانستان کے جنوبی علاقے میں فضائی حملے کیے جس میں 18 جنگجو ہلاک ہوگئے۔
رواں برس فروری میں طالبان اور امریکا کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت مئی 2021ء میں فوجوں کے مکمل انخلا سے قبل پینٹاگون کو فوجیوں کی تعداد جولائی کے وسط تک 12 ہزار سے کم کرکے 8 ہزار 600 کرنی تھی۔
تاہم امریکا کے سینئر دفاعی عہدیدار نے کہا کہ فوجیوں کی تعداد پہلے ہی ساڑھے 8 ہزار کے قریب ہے کیونکہ کورونا وائرس کے خدشات کے پیش نظر کمانڈرز انخلا میں تیزی لارہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی احتیاطی تدابیر کی وجہ سے انخلا میں تیزی لائی گئی لیکن اس سلسلے میں صحت کے خدشات یا ایک مخصوص عمر کو ترجیح دی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس وقت امریکی سپاہی کی تعداد 7 ہزار تک ہے۔ اس کے اگلے روز ہی انہوں نے کہا تھا کہ امریکا کو افغانستان میں پولیس فورس کا کردار نہیں ادا کرنا چاہیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ 19 سال کے بعد اب وقت آیا ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے پولیسنگ کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے سپاہیوں کو وطن واپس لائیں لیکن قریب سے دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو ایسا زوردار حملہ کریں جو پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔
دوسری طرف پینٹاگون کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل تھامس کیمپ بیل نے کہا تھا کہ امریکا طالبان سے کیے گئے معاہدے پر قائم ہے۔
علاوہ ازیں افغان شہریوں نے 19 سالہ جنگ کے دوران غیر معمولی جنگ بندی کا لطف اٹھایا جو صرف دوسری مرتبہ ہی نافذ کی گئی تھی۔