اسلام آباد(یس اردو نیوز)بھارت اور چین کے درمیان میجر جنرل کی سطح پر بات چیت بے نتیجہ رہنے کے بعد ’بھارت کو ہر ممکن صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہئے‘
بھارت نے اپنے تینوں مسلح افواج کو ہائی الرٹ کردیا ہے۔ اس دوران بھارت کے سابق فوجی سربراہوں کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کو ہر صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
بھارت کے بیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد چین کے ساتھ میجر جنرل سطح پر بدھ کو ہونے والی بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یہ بات چیت آج بھی جاری ہے تاہم دونوں ملکوں کے اپنے اپنے موقف پر مصر رہنے کی وجہ سے کسی مثبت نتیجے کی امید کم دکھائی دے رہی ہے۔
اس دوران بھارت کے کئی سابق فوجی سربراہوں کا کہنا ہے کہ چین کے رویے پر بھروسہ کرنا مشکل ہے اور نئی دہلی کو کسی بھی ممکنہ صورت حال سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
سابق آرمی چیف جنرل شنکر رائے چودھری کا کہنا ہے کہ بھارت کو ایک ایسے تصادم کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہئے جو شدت کے لحاظ سے جنگ سے کم لیکن سرحد پر ہونے والی جھڑپوں سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ بھارت کو اس مسئلے کو سفارتی سطح پر بھی حل کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔
جنرل چودھری کا خیال ہے کہ بھارت کو اس لیے بھی تیار رہنا چاہیے کیوں کہ چین فوجی طاقت کے لحاظ سے پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط ہے، جسے بھارت بھرپور طریقے سے جواب دے چکا ہے۔ انہوں نے کہا 1962میں جب دونوں پڑوسیوں کے درمیان جنگ ہوئی تھی اس کے بعد سے دونوں کی فوجی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا، “بھارت اب 1962کا بھارت نہیں ہے اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ چین بھی اب 1962کا چین نہیں ہے۔”
نومبر 1994 سے ستمبر 1997تک بھارت کے آرمی چیف رہنے والے جنرل چودھری کا کہنا تھا کہ 1962میں چھوسل میں شمالی سرحدوں پر مختصر جھڑپ کے بعد سے چین کے ساتھ کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی اور یہ علاقہ بڑی حد تک پرسکون رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنی صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ کیا ہے لیکن بدقسمتی سے اقتصادی محاذ پر ایسا نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ، “فوجی لحاظ سے ہم چین کا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے کافی پیسے کی ضرورت ہوگی۔”بھارت کے سابق فوجی سربراہ کا کہنا تھا “فوجی لحاظ سے تیاری کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں خود کو اقتصادی لحا ظ سے بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اور بھارت کو اپنے مختلف پروجیکٹ چینی کمپنیوں کو دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔”
بھارت کے ایک اور سابق آرمی چیف جنرل وید پرکاش ملک کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان پچھلے چند برسوں کے دوران فوجی، سفارتی اور سیاسی سطح پر اعتماد کی جو فضا قائم ہوئی تھی، حالیہ فوجی کارروائی سے وہ تباہ ہوگئی ہے۔
جنرل ملک کا کہنا تھا کہ حقیقی کنٹرول لائن پر امن اور سکون برقرار رکھنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان متعدد معاہدوں اور پروٹوکول پر دستخط، خصوصی نمائندوں کی سطح پر بات چیت اور اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے باوجود چینی فوج کی طرف سے غیر متنازعہ یا متنازعہ علاقوں میں دراندازی کے کوششیں بڑھ گئی ہیں۔
جنرل ملک کا کہنا تھا، “میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی کنٹرول لائن پر ہمیں اپنے علاقے اور اثاثوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے فوجیوں کی تعداد بڑھانی ہوگی اور وہاں جو فوجی تعینات ہیں ان کے لیے فوجی انفراانسٹرکچر کو فوری طور پر بہتر بنانے کی ضرورت ہوگی۔”
لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقی کنٹرول لائن پر اپریل سے پہلے کی صورت حال واپس لانے کے لیے بھارت کے پاس کیا آپشن ہیں؟ سابق آرمی چیف جنرل ملک کا کہنا تھا کہ، “مسلح افواج کو کسی بھی طرح کی فوجی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا لیکن کوئی بھی فیصلہ سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کو ہی کرنا ہوگا۔ اور میرا خیال ہے کہ حکومت اب سابقہ پوزیشن کو بحال کرنے کے لیے تمام سفارتی اور سیاسی آپشن بروئے کار لائے گی۔”جنرل وی پی ملک کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں فوجی سطح پر مذاکرات کا شاید ہی خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوسکے۔ اسے سفارتی اور سیاسی سطح پر ہی حل کرنا چاہیے۔ تاہم موجودہ حالات میں مسلح افواج کو پہلے سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
بھارت کے پچیسویں آرمی چیف (ریٹائرڈ) جنرل بکرم سنگھ کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کو بہت سخت جواب دیا ہے۔ انہوں نے سفارتی سطح پر معاملے کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور فوجی طاقت کا استعمال آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کی بات کہی ہے۔ ان کے خیال میں، “ہمارے پاس اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لیے بہت سارے متبادل موجود ہیں۔”
جنرل بکرم سنگھ کا کہنا تھا کہ، “ہم چین پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ دھوکہ اور فریب کو بھی ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا ہوگا۔ جہاں تک بات چیت کا معاملہ ہے وہ فریب اور مکر سے کام لینے کے لیے مشہور ہیں۔ چین کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات اور زمینی اقدامات ایک دوسرے سے متضاد ہوتے ہیں۔”