گئے وقتوں کی بات ہے کہ ایک چھوٹے سے نجی تعلیمی اسکول میں چپڑاسی کی بھرتی کے دوران ایک امیدوار کو اس لیے منتخب نہ کیا جاسکا کہ وہ بالکل اَن پڑھ تھا۔ امیدوار کے منت سماجت کرنے پر بھی انتظامیہ نے اسے منتخب کرنے سے انکار کردیا۔
جب کسی طور پر بات نہ بنی تو وہ صاحب ایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس کمیشن ایجنٹ بھرتی ہوگئے۔ غربت، بھوک، افلاس اور مجبوریوں کی وجہ سے وہ دن رات محنت کرتے، کیونکہ کسی مکان کی فروخت کی صورت میں ہی ان کو کمیشن ملتا اور ان کا کچن چلتا۔ بصورت دیگر اہل خانہ کو فاقے برداشت کرنا پڑتے۔ اپنی شبانہ روز محنت کی وجہ سے جلد ہی ان کا شمار ماہر ایجنٹ کے طور پر ہونے لگا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ ملازم سے مالک اور پھر ایک بڑے پراپرٹی ڈیلر بن گئے۔ دولت کی رول پیل نے انہیں سیاست کی طرف راغب کیا۔ الیکشن کا وقت آیا تو انہوں نے متوقع حکومتی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ انتخابی مہم میں پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ قسمت نے یاوری کی، وہ اور ان کی پارٹی دونوں ہی جیت گئے۔ وزارتوں کی بندر بانٹ شروع ہوئی تو ان کے حصے میں وزارت تعلیم آئی۔
وزیر بنتے ہی انہوں نے کارکردگی دکھانے کےلیے تعلیمی اداروں کے دورے شروع کردیے۔ جس نجی تعلیمی ادارے میں وہ چپڑاسی بھرتی ہونے گئے تھے، وہ اب ایک بڑا اسکول بن چکا تھا۔ انہوں نے بھی وزیر صاحب کو دورےکی دعوت دی، جو محترم نے بخوشی قبول کرلی۔ اسکول اور گردونواح کو ان کی آمد کی خوشی میں سجایا گیا۔ ان کےلیے ایک بڑا اسٹیج تیار کیا گیا۔ پرتپاک استقبال کے بعد جب وہ اپنی کرسی پر براجمان ہوئے تو ان کے برابر میں تشریف فرما اسکول کے ایک پرانے استاد نے ان کے کان میں سرگوشی کی کہ سر آپ کو یاد ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ آپ اس اسکول میں چپڑاسی بھرتی ہونے کےلیے آئے تھے؟
’’ہاں مجھے یاد ہے۔‘‘ انہوں نے فراخ دلی سے اعتراف کیا۔
’’سر اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو؟‘‘
’’ہاں ہاں! اگر میں پڑھا لکھا ہوتا تو آج چپڑاسی ہوتا۔‘‘
جس دور میں مندرجہ بالا تعلیمی قابلیت کے حامل افراد تعلیم کے کرتا دھرتا ہوا کرتے تھے، اس دور میں بھی تعلیمی نصاب اسلامی اقدار کی عکاسی کرتا تھا۔ آج جب کہ وزیر سے لے کر ایک درجہ چہارم تک ہر کوئی پڑھا لکھا ہے، ہمارےتعلیمی نظام کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ اس کی حفاظت کےلیے، اسے یورپی تہذیبی یلغار سے بچانے کےلیے کبھی ہمیں ’’خدیجہ عمر بل‘‘ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو کبھی گورنر پنجاب چوہدری سرور صاحب کی ذاتی کاوشوں کی۔ تاکہ ہماری آنے والی نسلوں میں اسلام کی رمق باقی رہ سکے۔ (یاد رہے کہ گورنر پنجاب کی ذاتی دلچسپی سے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی ہے، جو کہ بلاشبہ قابل ستائش ہے)
بالخصوص جب سے پی ٹی آئی حکومت میں آئی ہے، یہ تہذیبی حملے تیز ہوگئے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال ایم اے سال اول کی اردو گائیڈ ہے۔ یہ کتاب یونیورسٹی آف سرگودھا کے جدید نصاب کے عین مطابق ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 605 پر احساس اور جذبے کو خوبصورتی سے بیان کرنے کی کوشش کے نام پر فحاشی اور عریانی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ ادب کے نام پر معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ نوجوان نسل کو اسلامی شعائر سے دور کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔
اس اردو گائیڈ کی چند لائنیں یہاں پیش ہیں ’’لیکن بعد میں جب رندھیر نے اسے اپنی دھوتی اتار کر دی تو اس نے کچھ سوچ کر اپنا لہنگا اتار دیا، جس پر میل بھیگنے کی وجہ سے اور بھی نمایاں ہوگیا تھا۔ لہنگا اتار کر اس نے ایک طرف رکھ دیا اور جلدی سے دھوتی اپنی رانوں پر ڈال لی‘‘ اور اس کے بعد ادب کے نام پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ قلم کی حرمت کے پیش نظر احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ کیونکہ غالب گمان ہے کہ نیکی برباد گناہ لازم والی صورت حال ہوگی۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تعلیم کے نام پر کیا غلاظت آنے والی نسلوں کے ذہن میں اتاری جارہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب سرکار ایم اے سال اول اردو گائیڈ کو فور طور پر ضبط کرکے نئی کتاب کا اجرا کرے۔ اور ترامیم کے ذمے دار افراد کو قانون کے کٹہرے میں لاکر آئندہ کےلیے ایسی ترامیم کا راستہ روکنے کا بندوبست کرے۔
پنجاب کے تعلیمی نظام کے کرتا دھرتاؤں سے بھی گزارش ہے کہ خدارا چند سکوں کی خاطر، یا کسی کو خوش کرنے کےلیے اپنی اور دوسروں کی عاقبت خراب کرنے کی کوشش نہ کریں۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسی کوشش کبھی بھی بارآور ثابت نہیں ہوسکی۔ اور جب تک غیرت مند پاکستانی موجود ہیں آئندہ بھی دشمنان اسلام کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
آخر میں والدین سے بھی گزارش ہے کہ بچوں کی فیس ادا کرنے کے ساتھ ان کی تعلیمی کتب اور دیگر سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں۔ تاکہ اغیار کی اسلام دشمن کوششوں کا بروقت تدارک ہوسکے۔
نوٹ:یس اردو نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
محمد عمران چوہدری
بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔