بنت حوا
قسط نمبر 1
تحریر۔۔صوفی سفیان آدم زاد
بڑی ماں آپکو نہی پتا یہ آجکل کا فیشن ہے۔
آپ کے دور میں نہی تھا۔تو مجھے نہی پتا لیکن یہ ہمارے زمانے کی لڑکیوں میں بہت ہے۔
اتنا کہ کر تمنا نے اپنا بیگ اٹھایا اور یونیورسٹی کے لیے نکل گئ۔
بڑی بی بیچاری بے بسی کے عالم میں اسے جاتا دیکتھی رہی۔
یہ آجکل کی بچیوں کو بھی کسی بھی بات کا اثر نہی ہوتا لیکن پھر بھی وہ اس کے باوجود تمنا سے بہت پیار کرتی تھی۔
تمنا جو کہ انکے اکلوتے بیٹے ابتسام کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے اسکے سب نخرے اٹھائے جاتے ۔
ابتسام جو ایک ریٹائرڈ فوجی تھا۔لیکن آجکل ایک کپڑے کی مل چلا رہا ہے۔
تمنا کی ماں ایک غریب گھرانے سے تھی۔ بہت سلجھی اور نیک خاتون تھی ۔
تمنا کی پیدائش کے ڈیڈھ سال بعد اسکی ماں کی فوت ہوگئی ۔
تب سے تمنا کی پرورش بڑی ماں نے کی ۔اور اسکو کبھی بھی ماں کی کمی محسوس نہی ہونے دی۔
لاکھ منانے کے باوجود بھی ابتسام دوسری شادی کو راضی نہی ہوا تھک ہار کر بی جی نے انکو کہنا چھوڑ دیا ۔
بڑی بی نے اس وجہ سے ٹوکا کہ
اس کے سیاہ گھنگریالے بال جو کہ اس کی کمر کو چھوتے ہوۓ نیچے تک لٹکتے تھے ۔اسکی سیاہ بڑی شربتی آنکھیں اور ان میں کاجل دیکھنے والوں کی جان نکال لیتی تھی۔
سرخ و سفید رنگ اور پتلی سیدھی ناک اور اس پر غرور
کسی بھی دیکھنے والے کے لیے سحر انگیزی سے کم نا تھا۔
بلیک چست پاجامہ اور اوپر سفید شرٹ کھلے بال اور ہونٹوں پر گلابی لپ اسٹک لگاۓ پیروں میں اونچی ہیل والی جوتی پہنے بڑی بی کے سامنے پہنچی تو بڑی بی نے اعتراضا پکارا تمنا یہ کیا پہنا ہے اتارو اسے اور کوئ دوسرے کپڑے پہنو۔یہ کیسا بیہودہ لباس پہنا ہے۔
تمنا نے فوراا جان چھڑانے والے انداز میں کہا بی جی آپ کو تو کچھ پتا ہی نہی یہ آجکل کا فیشن ہے۔آپ کے زمانے میں نہی ہوتا ہوگا لیکن ہمارے دور میں یہ سب لڑکیوں کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔
اتنا کہ کر تمنا یونیورسٹی کے لیے نکل آئ
راستہ میں طرح طرح کے خیالات لیے پتا ہی نا چلا کہ کب گاڑی یونیورسٹی کے اندر داخل ہو گئ ۔ہارن کی آواز سن کر خیالات کی دنیا سے باہر آئ۔
گاڑی سے اتر کے ڈرائیور کو بولا شام کو ٣ بجے لینے آنا آج ایک ایکسٹرا لیکچر ہے۔
یونیورسٹی کے مین حال میں سے گرتے ہوہوۓ اسکو حانیہ نظر آئ۔
دور سے ہی اسکو آواز لگائ
جسے سن کر تمام لوگوں کی توجہ اسکی جانب ہوگئ
جب اس نے سب لوگوں کو اپنی جانب متوجہ پاکر اسے اپنی بے وقوفی پر ہنسی آنے لگی۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔