اسلام آباد(یس اردو نیوز) مصر کی پارلیمان نے دنیا کی پارلیمانی تاریخ کی منفرد ترامیم منظور کرتے ہوئے حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی مشروط اجازت دیدی ہے۔آئین میں کی جانے والی مذکورہ ترمیم میں واضح کیا گیا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے فوجی اہلکاراپنے محکمے کی اجازت کے ساتھ ہی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ نئی ترمیم کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ ان نئی ترامیم سے فوجی اہلکاروں کے لیے کسی بھی انتخابات میں حصہ لینا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے تاکہ ان کو السیسی کے خلاف مقابلے میں حصہ لینے سے روکا جا سکے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مصر کی پارلیمنٹ میں نئی ترامیم کی منظوری دیدی ہے۔ جس کے بعد مصر کے فوجی اہلکاراب صدارتی اورپارلیمانی دونوں ایوانوں کا حصہ بن سکیں گے۔ یہ ترمیم ایسے وقت میں کی گئٰ ہے جب اس سے قبل آئینی ترمیم کے ذریعے سابق آرمی چیف اور موجودہ صدر عبد الفتاح السیسی کے 2030 تک اقتدار میں رہنے کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ مصری فوج کے سابق چیف آف سٹاف ” سمی انان “ کو جنوری میں ملٹری کی واضح منظوری کے بغیر السیسی کے خلاف 2018 میں الیکشن لڑنے پر جیل میں ڈال دیا گیا تھا ۔جسے تقریبا دو سال کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ تا ہم ان تمام واقعات کے بعد اب مصری پارلیمان نے اس بات کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد اب مصر کی فوج کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔اور نئی ترمیم کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ ان نئی ترامیم سے فوجی اہلکاروں کے لیے کسی بھی انتخابات میں حصہ لینا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے تاکہ ان کو السیسی کے خلاف مقابلے میں حصہ لینے سے روکا جا سکے۔ یہ ترامیم فوجی افسران کو اپنی ملازمت کے دوران عوام کے سامنے معلومات ظاہر کرنے یا مسلح افواج کی سپریم کونسل سے اجازت کے بغیر سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک ہونے سے بھی روکتی ہیں۔ مسلح افواج کی سپریم کونسل ملک کے سب سے سینیئر جرنیلوں پر مشتمل فوجی کونسل ہے۔واضح رہے کہ مصر کہنے کو تو ایک جدید جمہوری ملک ہے تاہم ملک کا ماضی فوجی آمروں سے بھرا پڑا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مصر کے دو صدور کے سوا باقی تمام صدر فوجی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ فوج کا مصر کی عوامی زندگی میں بہت عمل دخل رہا ہے۔ فوج کے سابقہ دو اعلیٰ ترین افسران اس وقت السیسی کی کابینہ میں وزرا کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔السیسی نے 2013 میں منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے لیے فوج کی قیادت کی تھی جس کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق السیسی پہلی مرتبہ 2014 میں صدر منتخب ہوئے اور پھر مارچ 2018 میں دوسری مرتبہ 97 فیصد سے زائد ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔