اسلام آباد(ایس ایم حسنین) ملائشیا کی سول ایوی ایشن کے حکام نے کہا ہے کہ جیسے ہی پاکستانی حکام کی جانب سے پائلٹس کے لائسنسز کی تصدیق کی جائے گی پاکستانی پائلٹس کو بحال کر دیا جائے گا۔ گذشتہ ہفتے ہوابازی کے وزیر غلام سرور خان کے پائلٹس کے جعلی لائسنس کے متعلق بیان کے بعد پاکستان نے اپنے 30 فیصد پائلٹس کو گراؤنڈ کیا تھا۔
پاکستان کے پاس آٹھ سو 60 پائلٹس ہیں جن میں ایک سو سات غیر ملکی ایئر لائنز کے لیے کام کرتے ہیں۔ملائشیا کے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان نریلا انیس رحیم نے عرب نیوز کو بتایا کہ پائلٹوں کے لائسنس کی تصدیق کے لیے ملائشیا کے سول ایوی ایشن نے پاکستانی سول ایوی ایشن کو دو خط بھیجے ہیں اور اس کے ساتھ پاکستانی حکام کو ان پائلٹس کی معطلی کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا ہے۔
نریلا انیس رحیم نے بتایا کہ پاکستانی سول ایوی ایشن کی جانب سے مزید معلومات کی فراہمی تک پاکستانی پائلٹس کے لائسنس معطل کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ جمعرات کو ملائشیا کے ایوی ایشن کے محکمے نے مقامی ایئر لائنز کے ان پائلٹس کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا جن کے پاس پاکستانی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے جاری کردہ لائسنس تھے۔
’ہم پاکستان سول ایوی ایشن کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ جیسے ہی سرکاری طور پر ان کے لائنسنس کی تصدیق ہوتی ہے، ہم پاکستانی پائلٹس کو فوری طور پر بحال کر دیں گے۔‘
ملائشیا کے سول ایوی ایشن کے سی ای او کیپٹن چیسٹر وو نے اعلان کیا تھا کہ مقامی ایئر لائن کے ساتھ کام کرنے والے 20 پاکستانی پائلٹس کو عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے۔نریلا انیس رحیم کے مطابق کہ یہ فیصلہ ملائشیا کے سول ایوی ایشن کی صنعت کی حفاظت اور مسافروں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
’ ہم نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس ملک میں کام کرنے والے پائلٹس کے پاس صحیح لائسنس ہو جو ملائشیا کی سول ایسی ایشن کے قواعدوضوابط کے مطابق ہو۔‘
برطانیہ، یورپ اور ویتنام نے بھی پاکستانی پائلٹس کو معطل کیا ہے اور یورپی یونین نے پی آئی اے کی فلائٹس پر چھ ماہ کے لیے پابندی عائد کی ہے۔
ایوی ایشن کے ماہر رزل قمرالزمان نے عرب نیوز کو بتایا کہ ملائشیا نے ہمیشہ سرٹیفکیٹس کی اصلیت اور پائلٹس کی کوالیفکیشن سے متعلق سخت موقف اپنایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ طور پر پائلٹس کی تصدیق پاکستان اور ملائشیا کے ریگلویٹرز کے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ مشکوک کوالیفکیشن والے پائلٹس کو نہ رکھا جائے۔رزل قمرالزمان کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کے ہوابازی کے ادارے پاکستان سے سبق سیکھے۔
’ریگولیٹرز کے درمیان اعتماد اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنا جہاز، پائلٹس، انجینیئرز اور مسافروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے ایک مقدس معاہدہ ہے جس پر دنیا میں کہیں بھی کمپرومائز نہیں کیا جاتا۔‘