اسلام آباد(ایس ایم حسنین) قومی اسمبلی کا جلاس ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز میں سید نوید قمر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز جو کہ 4 بجے تک اجلاس ملتوی کیا گیا تھاجبکہ آج 5 بج کر 10منٹ پراجلاس شروع ہوا۔ کابینہ کی میٹنگ کی وجہ سے اجلاس میں تاخیر غلط ہے۔ اس سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ نوید قمر نے کہا کہ ایک گھنٹے سے اراکین انتظار کررہے ہیں اور ایجنڈے میں لمبی فہرست ہے جبکہ کابینہ اجلاس چل رہا تھا،۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رکن صابر قائم خانی نے کراچی میں لوڈ شیڈنگ پر کے-الیکٹرک کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ شہریوں کا جینا اجیرن ہوگیا ہے۔ اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے انجینیئر صابر قائم خانی نے کہا کہ ‘کراچی اندھیروں میں ڈوب گیا ہے، کراچی کو عروس البلاد کہا جاتا لیکن آج وہاں نہ بجلی کے آنے کا پتا ہوتا ہے اور نہ جانے پتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘کے-الیکٹرک نے کراچی کے شہریوں کا جینا اجیرن کردیا ہے، وہاں نہ صرف لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے بلکہ اوور بلنگ بھی ہورہی ہے’۔ کے-الیکٹرک کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘ذرا سی ہوا چلتی ہے اور بارش کی چند بوندیں پڑتی ہیں اس کا پورا نظام فیل ہوجاتا ہے’۔ صابر قائم خانی کا کہنا تھا کہ 24،24 گھنٹے بلکہ 36 گھنٹے بھی کراچی اندھیروں میں ڈوبا رہا حالانکہ کراچی معاشی دارالحکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں بھی حیسکو نے 10 برسوں میں اپ گریڈیشن نہیں کی اور نہ کوئی نیا گرڈ اسٹیشن لگا اور اسی طرح سکھر میں سیپکو نے بھی وہی حال کردیا ہے۔ رکن ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ اراکین قومی اسمبلی دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں لہٰذا نظام کو درست کریں اور عوام کی تکالیف کو کم کریں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا کہ کشمیریوں نے یوم شہدا منایا اور اس موقع پر بھارت کے ساتھ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کھول دی گئی۔ یوم شہدا سے متعلق واقعے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اذان کو مکمل کرتے ہوئے 22 کشمیریوں کو شہید کیا گیا لیکن کشمیریوں نے اذان مکمل کی اور یہ کشمیر کی تاریخ کا بہت بڑا اور جذباتی دن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی جدوجہد کے لیے یہ دن ایک سنگ میل ہے اور اس دن افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کھولنا کشمیریوں کو رنج پہنچانے کی کوشش ہے۔خواجہ آصف نے سوال کیا کہ ہم نے کن شرائط پر اس تجارت کو کھولا ہے اور اس دن پر اس کا اعلان کرنا حکومت کی کیا مجبوری تھی حالانکہ وہاں پر مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے، کشمیر میں 10 لاکھ بھارتی فوج موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی خارجہ پالیسی اور افغان امن عمل کے حوالے سے کوئی مجبوری تھی تو کچھ دن آگے پیچھے کرتے کیونکہ اس سے کشمیریوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔وفاقی وزیر فیصل واڈا نے قومی اسمبلی میں تقریر میں کہا کہ ‘کراچی میں کے-الیکٹرک کا مسئلہ چل رہا ہے اور کل پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے طویل پریس کانفرنس کی گئی’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘پی پی پی کے چیئرمین بہت سی رپورٹس اور دستاویزات کا حوالہ دیا جس کا جواب مراد سعید نے دیا لیکن ہمیں عادت ہے قرضہ سود سمیت واپس کرنے اور سود واپس کرنے کی باری آگئی ہے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘بلاول بھٹونے کل کہا کہ اس رپورٹ کو میڈیا اس طرح دکھائے کہ یہ اصلی رپورٹ ہو اور پی ٹی آئی کا ساتھ نہ دے اور غیرجانب دار رپورٹ بھی بتائے’۔ وفاقی وزیر کاکہنا تھا کہ ‘انہی کی رپورٹ کی تفیتش ایف آئی اے نے کی تھی، اس کے چند پہلو اہم ہیں اور پوری چارج شیٹ پیپلزپارٹی پر ہے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی نے جب ابراج کے ساتھ کے-الیکٹرک کا سودا ہوا تھا تو انٹرنل آڈیٹر محمد امین راجپوت کو ایم ڈی لگادیا، جب ایم ڈی اپنا لگایا تو ہم سے گلہ کیوں کررہے ہیں’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘رپورٹ میں لکھا کہ ابراج کے مالک نقوی صاحب عمران خان کے دوست ہیں اور پارٹی کو فنڈنگ کررہے تھے، دوست ہمارے تھے اور نبھا آپ کے ساتھ رہے تھے’۔ فیصل واڈا نے کہا کہ ‘ای سی سی کی منظوری کے بغیر معاہدے ہوتے رہے، دوست ہمارا لیکن نواز آپ رہے تھے، اس کے بعد سوئی سدرن کو کہا جاتا ہے کہ گیس کم کردی جائے اور پی ایس او سے پیٹرول خریدا جائے جبکہ پیسہ کے-الیکٹرک نہیں حکومت پاکستان دے گی اور اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی’۔ انہوں نے کہا کہ ‘5.8 بلین روپے پاکستان کی حکومت دینے کوتیار تھی، اس آدمی کو کیوں نوازا جارہا تھا’۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ‘کے-الیکٹرک سے بینک گارنٹیز نہیں لی گئیں، پیپلزپارٹی کی حکومت میں نقوی صاحب کو اتناکیوں نوازا جارہا تھا’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے حقائق نہیں چھپائے، نقوی صاحب عمران خان کے دوست تھے لیکن دوست غلط کام کرے تو اس کا ذمہ دار نہیں لیکن جس نے نوازا ہے ان سے پوچھا جائے’۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ‘مسلم لیگ (ن)کی طرف سے بیانیہ آرہا ہے، باربار کہا جارہا ہے اس حکومت نے سب سے زیادہ مہنگائی کی، نالائق ہیں، کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اورہم کہتے ہیں کہ انہوں نے قوم کا پیسہ لوٹا او قوم مقروض ہوئی جس سے قوم کنفیوژ ہوگئی’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میں چیلنج کررہا ہوں کہ ان کی طرف سے تین آدمی شاہد خاقان عباسی، محمدزبیر اورمفتاح اسمٰعیل صاحب ہیں جو معیشت کے چمپیئن ہیں کیونکہ ان کے وزیرخزانہ کو ملک سے بھاگے ہوئے ہیں’۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہماری طرف سے اسد عمر، حفیظ شیخ اور حماد اظہر تین لوگ ہیں اور 30 دنوں کا وقت رکھتے ہیں 60 ٹی وی شوز میں بٹھاتے ہیں اور بتائیں کہ ہم نے ملک کو تباہی میں ڈالا ہے یا آپ نے ڈالا تھا، پاکستانی قوم خود فیصلہ کرے گی’۔ فیصل واڈا نے کہا کہ ‘آپ لوگ اپنا ملبہ تو تسلیم کریں، کراچی میں کے-الیکٹرک کی وجہ سے تباہی ہورہی ہے اس کا ملبہ تو قبول کریں، رپورٹ آپ کی حکومت نے دی ہے اور اس رپورٹ میں پیپلزپارٹی کی کرپشن کی داستان کھلے عام نظر آرہی ہے’۔ پی پی پی رہنما نوید قمر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘عارف نقوی ابراج کے مالک ہیں اور انہوں نے خود کہا کہ میں پی ٹی آئی کی انتخابی مہم صرف 2018 بلکہ 2013 کو بھی فنڈنگ کرتا رہا ہوں، یہ ریکارڈ پر ہے اور حقیقت ہے، اگرتسلیم نہیں کرتے تو یہ آپ کا مسئلہ ہے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘جس وقت کی بات کررہے ہیں اس وقت گیس کی شدت قلت تھی، ہم نے کے-الیکٹرک کا منافع بڑھانے کے لیے ایک چیز سامنے نہیں رکھی تھی بلکہ اس وقت گیس نہیں تھی اس لیے فیصلہ کیا گیا تھا’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ایف آئی اے اورنیب بھی ان کے پاس تفتیش کریں گے لیکن کمیٹیوں کے پاس معاملہ بھیج دیں وہاں دیکھا جائے گا’۔ نوید قمرنے کہا کہ جب ایوان میں کوئی اعداد وشمار لائے جاتے ہیں تو ان کو دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے میں استدعا کروں گا کہ اس معاملے کو کمیٹی کے پاس بھیج دیں اور وہاں حقائق سامنے آنے دیں۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ ‘اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مرکزی حکومت کے قرضے کی تفصیلات جاری کی ہیں، جس کے مطابق جب مسلم لیگ (ن) نے حکومت چھوڑی تو مرکزی حکومت کا قرض 24 ہزار 212 اعشاریہ ایک ارب تھا’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ 31 مئی 2020 کو وفاقی حکومت کا لیا گیا قرض 34 ہزار 489 اعشاریہ 2 ارب ہے، اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے 23 ماہ میں صرف وفاقی حکومت نے 10 ہزار 277 اعشاریہ ایک ارب تھے اور جتنے مسلم لیگ (ن) اپنے پورے دور میں لیے تھے اس کے برابر ہے’۔رہنما مسلم لیگ (ن) کہا کہ ‘یہ نالائقی، نااہلی اورمافیا نوازی کا کون ساکالا کنواں ہے جس میں یہ 10 ہزار 277 اعشاریہ ایک ارب روپے گئے ہیں’۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں لیکچر دیا گیا کہ ہم نے 5 ہزار اب ادا بھی کیے، تو 10 ہزار ارب پھر بھی رہ گئے ، اس کا مطلب ہے کہ اس حکومت نے اوسطاً ہر روز کم ازکم 15 ارب روپے کا قرض لیا ہے’۔ خرم دستگیر نے کہا کہ ‘اگر مسلم لیگ (ن) 10 ہزار 600 ارب قرض لیا تو ہم نے ضرب عضب، رد فساد لڑا، دیامر بھاشا ڈیم کی 126 ارب روپے کی زمین خریدی، 12 ہزار میگاواٹ کی بجلی لگائی، 2 ہزار کلومیٹر کی ٹرانسمیشن لائن بچھائی، کچھی کینال مکمل کیا، ہم نے لواری ٹنل مکمل کی ملک کے دوسرے حصے میں، منصوبوں کی ایک لمبی فہرست ہے’۔ رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ‘حکومت ہمیں بتائے کہ یہ کون سا ریکارڈ قرضہ ہے جس کے سامنے ترقی کوئی نہیں ہوئی، یہ کیسی سرکاری ہے، جس میں حاکمیت کوئی نہیں ہے، یہ مافیاہے جہاں حکومت نہیں ہے اور عوام کے لیے بھوک ہے، روزگار نہیں ہے’۔
وفاقی وزیر پانی وبلی عمر ایوب خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے 1947 سے 2013 تک لیے گئے قرضے میں دوگنا اضافہ کیا ہے جوکہ بہت بڑی نااہلی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کی حکومت 2018 انتخابات کے وقت سوچ رہی تھی کہ اگر حکومت انھیں مل گئی تو وہ اس قرضے کے واجبات کو سنبھالنا بہت مشکل امر ہوگا۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس اس بات کے گواہ موجود ہیں۔ مسلم لیگ ن کے راہنما بے تہاشا قرضے سے پریشان تھے۔