اسلام آباد(یس اردو نیوز) پاکستان نے بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ کے زیر حراست اور سزا یافتہ ایجنٹ کمانڈر کلبھوشن یادیو کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ کرلیا۔ دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق پاکستان میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کے حوالے سے بھارت کو رسمی طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارتی جاسوس کو سیکیورٹی اہلکاروں کے بغیر قونصلر رسائی دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے بتایا کہ قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر کیا گیا اور اس سلسلے میں بھارت کے جواب کا انتظار ہے۔خیال رہے گزشتہ روز ہی پاکستان نے بھارتی ہائی کمیشن کے 2 اہلکاروں کو کلبھوشن تک رسائی دی تھی تاہم سفارت کاروں نے اس کی ایک نہ سنی اور چلے گئے۔ اس سے قبل ستمبر 2019 میں کلبھوشن یادیو کو دی گئی پہلی قونصلر رسائی ویانا کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت دی گئی تھی جو 2 گھنٹوں تک جاری رہی تھی۔
بھارتی سفارتکار کلبھوشن کی بات سنے بنا چلے گئے ۔
گزشتہ روز ہوئی ملاقات کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا تھا کہ بھارت کے 2 سفارت کاروں کو قونصلر رسائی دی گئی، کلبھوشن بار بار انہیں پکارتا رہا اور کہتا رہا کہا کہ اس کی بات سنی جائے۔ انہوں نے کہا تھا کہ قونصلر رسائی کی ضرورت کے مطابق تمام اقدامات اٹھائے گئے لیکن بھارتی سفارت کاروں نے کلبھوشن تک رسائی کے بجائے راہ فرار اختیار کی۔ وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ بھارتی سفارتکاروں کا رویہ حیران کن تھا، سفارت کاروں نے کلبھوشن سے بات ہی نہیں کرنی تھی تو رسائی کیوں مانگی۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی سفارت کاروں کو درمیان میں شیشے پر اعتراض تھا وہ بھی ہٹا دیا، انہوں نے آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ پر اعترض کیا وہ بھی نہیں کی، بھارتی سفارت کاروں کی تمام خواہشات پوری کیں پھر بھی وہ چلے گئے تھے۔
ایک بیان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کی بدنیتی کھل گئی ہے یہ رسائی نہیں چاہتے تھے، انہیں شیشے پر اعتراض تھا وہ بھی ہٹادیا، ہم نے یہ بھی کہا کہ ایک کے علاوہ باقی سیکیورٹی اہلکار بھی ہٹادیتے ہیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کے پیش نظر کلبھوشن یادیو کو بالکل تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے، پتا نہیں کیا کرلیتے۔
بلا رکاوٹ قونصلر رسائی نہیں دی گئی، بھارت کا الزام
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ گزشتہ روز ہونے والی ملاقات کے حوالے سے بھارت نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس کے سفارتکار نے احتجاج کیا اور ملاقات سے چلے گئے تھے۔ بھارت کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستانی حکام نے ’بغیر کسی رکاوٹ‘ کے قونصلر رسائی کے سمجھوتے کی پاسداری نہیں کی۔
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق قونصلر اہلکار اس بات پر احتجاج کے بات چلے گئے تھے کہ رسائی میں آزادانہ گفتگو کی اجازت نہیں تھی جس پر کچھ روز قبل پاکستان نے اتفاق کیا تھا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’بھارت کی جانب سے احتجاج کے باوجود پاکستانی عہدیدار دھمکی آمیز برتاؤ کے ساتھ کلبھوش یادیو اور قونصلر کے افسران کے قریب موجود رہے‘۔ بھارتی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ انہیں کلبھوشن سے قانونی نمائندگی کے لیے تحریر رضامندی حاصل کرنے سے روکا گیا جو ان کے کیس پر نظر ثانی کے لیے ضروری ہے۔ یاد رہے کہ 8 جولائی کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے بتایا تھا کہ پاکستان نے بھارت کو دوسری مرتبہ قونصلر رسائی کی پیشکش کی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا تھا کہ پاکستان نے کلبھوشن یادیو کی اہلیہ اور والد سے ملاقات کی بھی پیشکش کی گئی ہے جبکہ اس سے قبل کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ کی 25 دسمبر 2017 کو ان سے ملاقات کروائی گئی تھی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ 17 جون 2020 کو کلبھوشن یادیو کو ان کی سزا پر نظرِ ثانی اور دوبار غور کی اپیل دائر کرنے کی پیشکش کی گئی اور پاکستان نے را ایجنٹ کے لیے قانونی نمائندگی کا انتظام کرنے کی بھی پیشکش کی تھی۔ تاہم کلبھوشن یادیو نے اپنے قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کے لیے اپیل دائر کرنے سے انکار کیا اور اس کے بجائے زیر التوا رحم کی اپیل پر جواب کے انتظار کا انتخاب کیا تھا۔خیال رہے کہ پاکستان نے را کے ایجنٹ کمانڈر یادیو کی سزائے موت کو سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور تک کے لیے روک دیا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈینسس 2020‘ نافذ کیا۔ اس آرٹیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت کلبھوشن یادیو بذات خود، قانونی اختیار رکھنے والے نمائندے یا بھارتی ہائی کمیشن کے قونصلر اہلکار کے ذریعے نظرِ ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور عالمی عدالت میں مقدمہ
یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ‘را’ کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔
بعدازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔ بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔
بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔ 13 دسمبر 2017 کو کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت کی شکایت پر پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جوابی یاد داشت جمع کرائی گئی تھی۔ جس کے بعد 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی۔واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے کیے گئے دعوؤں پر پاکستان اور بھارت کی جانب سے 2، 2 جوابات داخل کروائے گئے تھے۔
تاہم بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا تھا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ سے کب اور کس طرح ریٹائر ہوا، کیونکہ پکڑے جانے کے وقت کلبھوشن کی عمر 47 برس تھی۔ علاوہ ازیں بھارت کو اس بات کی وضاحت دینے کی ضرورت تھی کہ کلبھوشن یادیو کے پاس جعلی شناخت کے ساتھ اصلی پاسپورٹ کیسے آیا، جس کو اس نے 17 مرتبہ بھارت آنے جانے کے لیے استعمال بھی کیا اور اس میں اس کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔ دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن کے لیے ان کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے انتطامات کیے تھے۔یہ ملاقات پاکستان کے دفترِ خارجہ میں ہوئی جہاں کسی بھی بھارتی سفیر یا اہلکار کو کلبھوشن کے اہلِ خانہ کے ساتھ آنے کی اجازت نہیں تھی۔ مذکورہ ملاقات کے دوران کلبھوشن یادیو نے اپنی اہلیہ اور والدہ کے سامنے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے جاسوسی کا اعتراف کیا تھا۔
گزشتہ سال 2019 میں 18 سے 22 فروری کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان کلبھوشن یادیو کیس کی عوامی سماعت مکمل ہوگئی تھی۔ بعد ازاں 17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت نے کیس کا فیصلہ سنادیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کردی تھی۔