اسلام آباد(یس اردو نیوز)’وحشی طالبان کی رہائی ایک قومی غداری ہے۔ اس گروہ کو یہ تاوان ادا نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔’افغانستان کے ایوان نمائندگان میں امن مشاورتی جرگے کی رکن بلقیس روشن نے لویا جرگہ میں صدر محمد اشرف غنی کی تقریر کے دوران ان پر طالبان کو رہا کرنے کا الزام لگایا۔ افغانستان کے ایوان نمائندگان میں امن مشاورتی لویا جرگہ کی رکن بلقیس روشن نے کابل میں جاری لویا جرگہ میں صدر محمد اشرف غنی کی تقریر کے دوران طالبان قیدیوں کی شدید مخالف کی جس پر انہیں ہال سے نکال دیا گیا۔ انہوں نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر انہیں نے لکھا تھا کہ ‘وحشی طالبان کی رہائی ایک قومی غداری ہے۔ اس گروہ کو یہ تاوان ادا نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔’ بلقیس روشن نے لویا جرگہ میں اپنے احتجاج کا نعرہ لگاتے ہوئے لکھا ‘طالبان کو خراج پیش کرنا قومی غداری ہے۔’ صدر غنی نے بلقیس روشن کے احتجاج کے جواب میں کہا ‘میں انہیں کوئی تاوان ادا نہیں کررہا ہوں، اپنے ساتھیوں کو قائل کریں۔ فیصلہ آپ کا ہے، آپ کو ایک دوسرے کو اس کے بارے میں راضی کرنا ہوگا۔’ امن مشاورتی لویا جرگہ کی رکن بلقیس روشن نے افغان صدر اشرف غنی کی بات نہیں مانی اور بار بار اس بات کا اعادہ کیا، یہاں تک کہ جرگہ کے عہدیداروں نے انہیں زبردستی ہال سے نکلوا دیا۔ لویا جرگہ سے نکالے جانے کے بعد بلقیس روشن نے کہا ‘میں نے اس جرگے میں لوگوں کی نمائندگی کی اور ان کی آواز اٹھائی لیکن اشرف غنی نے میری بات نہیں مانی اور جب میں نے احتجاج کیا تو مجھے ہال کے اندر مارا پیٹا گیا، اور پھر صدارتی گارڈ نے مجھے لویا جرگہ سے نکال دیا۔’ متعدد افغان شہریوں نے بھی لویا جرگہ ممبر کے خلاف ہونے والے تشدد کو غیر آئینی قرار دیا اور آزادی اظہار رائے نہ ہونے کی مذمت کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لویا جرگہ میں حصہ لینے والوں کی انفرادی آواز کو سنا جانا چاہیے اور کسی کو بھی اس طرح ہال سے پرتشدد طریقے سے بے دخل نہیں کرنا چاہیے۔ افغانستان کی سول سوسائٹی رکن مریم حسینی نے کہا ‘میں بلقیس روشن سے اتفاق کرتی ہوں، طالبان قتل و غارت گری کے سوا کچھ نہیں جانتے، لیکن جب روشن نے احتجاج کیا تو صدر کو ان کی آواز کو خاموش نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایسے نظام میں جو جمہوری ہونے کا دعویدار ہے، شیریں یا تلخ کلامی دونوں ضرور سننی چاہیے اور صدر کو اپنے شہریوں کو حق کی آواز بلند کرنے پر ان کا دم گھونٹنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔’ نادریح رحیمی نے، جو ایک سول کارکن بھی ہیں، کہا ‘بلقیس کی حق پرست آواز کو خاموش کر دیا گیا، ان کے ساتھ ایسا سلوک اور زیادتی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ مجھے واقعی افسوس ہے۔ میں اس جرگے کے سپیکر عبداللہ عبداللہ سے کہتا ہوں کہ وہ دوبارہ بلقیس کو بلائیں اور لوگوں کو کسی خوف یا اندیشے کے بغیر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت دیں، اور ان کے دلوں میں کیا ہے، انہیں واضح طور پر یہ بیان کرنے دیں۔’ افغان صدر کے سینیئر ثقافتی مشیر شاہ حسین مرتضوی نے امن مشاورتی لویا جرگہ کی رکن بلقیس روشن کے احتجاج کے جواب میں کہا ‘ہم پسماندہ نقطہ نظر کے ساتھ مقبولیت کے متلاشی رویے پر ایک اہم قومی اجلاس کی قربانی نہیں دے سکتے۔ اظہار رائے کی آزادی شہریوں کا ناگزیر اور قانونی حق ہے لیکن ایک اہم اور قومی اجلاس میں رکاوٹ بھی قابل اعتراض ہے۔ کیونکہ جرگہ ان اہم امور پر تبادلہ خیال کر رہا تھا جو شاید تین دن میں ہونے والے مذاکرات کے آغاز میں پیش آئیں گے۔’