اسلام آباد(ایس ایم حسنین) افغانستان کی روایات میں جکڑی ہوئی خواتین کو معاشرے میں اہم مقام دیتے ہوئے حکومت نے آئین میں ترمیم منظور کی ہے۔ افغانستان میں مائوں کو اپنی نوعیت کی منفرد پہچان دینے کیلئے قانون میں ترمیم کی منظوری دے دی گئی ہے۔ جس کے مطابق افغانستان میں بچوں کے شناختی کارڈ پر اب ماں کا نام بھی درج ہوگا۔غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ قانون ایک ایسی مہم کے بعد عمل میں آیا ہے جس میں خواتین کے ناموں کو لے کر لوگوں کی روایتی سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ خواتین کے حقوق کے کارکنان کی طویل جدوجہد کے بعد صدر اشرف غنی نے جمعرات کو اس ترمیم کی منظوری دی۔ اس سے پہلے تک افغانستان کے قوانین کے مطابق قومی شناختی کارڈ پر والد کا نام لکھا جاتا تھا۔ افغان معاشرے میں سرعام کسی خاتون کا نام لینا بُرا سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جن میں نسخے کے لیے اپنا نام بتانے پر خواتین پر تشدد کیا گیا۔ تین برس قبل ’میرا نام کہاں ہے‘ کے نام سے ایک مہم متعارف کی گئی تھی جس میں معروف شخصیات اور اراکینِ پارلیمان نے بھی شرکت کی تھی۔ اس مہم میں قومی شناختی کارڈ پر والد کے ساتھ والدہ کا نام شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سنہ 2001 میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کی دو دہائیوں بعد اسے افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس مہم میں لوگ اپنا تعرف اپنی والدہ کے نام سے کرتے دکھائی دیے تھے۔
بی بی سی افغان سروس کی مہجوبا نوروزی کے مطابق یہ مسئلہ بہت جلد شروع ہوجاتا ہے جب ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ ’اسے نام دینے میں بھی کافی وقت لگتا ہے۔ جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اس کا نام دعوت نامے پر نہیں لکھا جاتا۔ جب وہ بیمار ہوتی ہے تو اس کا نام نسخے پر نہیں لکھا جاتا۔ اس کا نام ڈیتھ سرٹیفیکیٹ پر نہ قبر پر لکھا جاتا ہے۔‘
لالے عثمانی ’میرا نام کہاں ہے‘ کی بانی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ان نتائج سے بہت خوش ہیں۔’کوئی شک نہیں کہ یہ جیت کارکنان اور شہریوں کی مسلسل مہم جوئی کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ: ’حکومت شہریوں کے ساتھ کھڑی ہوئی اور میں صدر اور ان کے ساتھیوں کی حمایت کی شکر گزار ہوں۔ میں ان سب مرد اور عورتوں کی شکر گزار ہوں جنھوں نے اس مہم کی حمایت کی تھی اور اپنی آواز بلند کی۔‘
افغان کابینہ میں قانونی امور کی کمیٹی کا کہنا تھا کہ ’والدہ کا نام شناختی کارڈ میں شامل کرنا صنفی برابری کے حصول اور خواتین کے حقوق کی آگاہی کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔‘ کابل سے رکن پارلیمان مریم سما نے اس مہم کی حمایت کی تھی۔ انھوں نے ٹوئٹر پر ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا جن کی کوششوں کے باعث یہ کامیاب رہی۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دونوں اطراف کے نمائندے رواں ہفتے میں ملیں گے اور مذاکرات کا آغاز کریں گے۔ ماضی میں قیدیوں کے تبادلے پر اس بات چیت میں تاخیر ہوچکی ہے۔
ان کے مطابق اس فیصلے پر قدامت پسند اور روایتی طبقے کی جانب سے کافی مخالفت آنے کا خدشہ ہے جو اسے ’مغربی منصوبہ‘ قرار دیں گے۔
لالے عثمانی کہتی ہیں کہ انھیں کئی بار جان سے مار دینے کی دھمکی دی جاچکی ہے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی 21 رکنی ٹیم میں صرف تین خواتین شامل ہیں۔ 10 ستمبر کو ایک خط میں افغان خواتین نے عالمی رہنماؤں سے برابری، جمہوریت اور خواتین کی شمولیت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے انتہا پسندی کے خطرے سے دوچار مستقبل کی نسلوں کی حفاظت کا بھی مطالبہ کیا تھا۔