counter easy hit

نہ نہ کرتے، کلبھوشن یادیو کیلئے پاکستان وکلاء کی خدمات لینے سے انکار کرنے والے انڈین حکام اپنے چار دوسرے دہشتگردوں کیلئے اسلام آبادہائی کورٹ جاپہنچا

اسلام آباد(ایس ایم حسنین) کلبھوشن یادیو معاملے پر پاکستانی وکلاء کی خدمات حاصل کرنے سے انکار کرنے والے انڈین حکام نے پاکستانی وکیل کے توسط سے اپنے چار شہریوں کی رہائی کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چاروں انڈین شہریوں کو پاکستان میں آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزائیں دی گئی تھیں اور وہ یہ سزا پوری کر چکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن نے پاکستان میں فوجی عدالت سے سزا پانے والے چار بھارتی مجرموں کی رہائی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے۔

پاکستان میں چاروں بھارتی مجرموں کوجاسوسی اور دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزا ہوئی ہے۔ ان میں سے3 مجرم لاہور جیل جبکہ ایک کراچی کی جیل میں قید ہے۔بھارتی ہائی کمیشن نے برچو،بنگ کمار،ستیش بھگ اورسونو سنگھ کی رہائی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔اِن چاروں کو قید کی سزا ہوئی تھی۔ان ملزمان میں ایک کی سزا سال 2007، ایک ملزم کی سزا سال 2012، ایک ملزم کی سزا سال 2014 اور ایک ملزم کی سال 2015 میں مکمل ہوچکی ہے۔ پاکستانی وکیل ملک شاہنواز نون کے توسط سے دائر کی جانے والی اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ انڈین شہری برجو ڈونگ ڈونگ عرف برچھو، وگیان کمار، ستیش بھوگ اور سونو سنگھ کو پاکستانی فوج نے گرفتار کیا تھا اور انھیں پاکستان آرمی ایکٹ کی شق 59 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزائیں دی گئی تھیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ برجو ڈونگ کی سزا سنہ 2007 میں، سونو سنگھ کی 2012 میں، وگیان کمار کی 2014 میں جبکہ ستیش بھوگ کی 2015 میں مکمل ہو چکی ہے لیکن ابھی تک ان قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا ۔ درخواست گزار کے وکیل شاہنواز نون کا دعویٰ ہے کہ جن افراد کی رہائی کی درخواست کی گئی ہے وہ دراصل ماہی گیر ہیں اور فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزا کے بعد ان میں سے تین قیدیوں کو لاہور کی جیل میں جبکہ ایک قیدی کو کراچی کی جیل میں رکھا گیا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ درخواست منظور کر لی ہے اور اس کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی پر مبنی ایک رکنی بینچ آئندہ جمعے کو کرے گا۔ درخواست میں ان انڈین قیدیوں کے رشتہ داروں کے ناموں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنھوں نے اپنے عزیزوں کی رہائی کے لیے انڈین ہائی کمیشن سے رابطہ کیا تھا۔ وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کو فریق بنانے والی اس درخواست میں بتایا گیا ہے کہ ان انڈین شہریوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ سنہ 1954 اور نیشنل سیکرٹ ایکٹ سنہ 1923 کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمے چلائے گئے جن کے نتیجے میں چار یا پانچ سال تک کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

درخواست میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان افراد کی رہائی کے بارے میں پاکستانی وزارت خارجہ کو بارہا یاد دہانی کروائی گئی کہ یہ چاروں قیدی اپنی سزا پوری کرچکے ہیں لہذا ان کی دوبارہ آباد کاری کے لیے ان افراد کو انڈین حکومت کے حوالے کردیا جائے۔ انڈین ہائی کمیشن نے موقف اپنایا ہے کہ یاد دہانی کے باوجود وزارت داخلہ نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی ابھی تک ان افراد کو انڈین حکومت کے حوالے کیا گیا ہے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین کا ارٹیکل ’فری اینڈ فیئر ٹرائل‘ پر زور دیتا ہے۔ درخواست گزار نے الزام عائد کیا ہے کہ ان انڈین قیدیوں نے قانونی معاونت طلب کرنا چاہی تھی لیکن جیل کے حکام نے انھیں وکلا سے ملتے نہیں دیا گیا اور نہ ہی قانونی کارروائی کے لیے کسی کو اٹارنی مقرر کرنے کی اجازت دی گئی۔ درخواست میں یہ قانونی نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ اگر کوئی قیدی اپنی سزا مکمل کر لے تو پھر اسے کس قانون کے تحت حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ماضی میں بھی ایسے فیصلے موجود ہیں جن میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان انڈین قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے جو اپنی سزا کاٹ چکے تھے۔

یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کی جانب سے ماہی گیروں اور غلطی سے سرحد عبور کرنے والے افراد کی گرفتاریاں عام معمول رہا ہے اور ایسے افراد سزائیں مکمل ہونے کے بعد بھی اس وقت تک رہائی حاصل نہیں کرتے جب تک دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات بہتر ہوں اور جذبہ خیر سگالی کے اظہار کے طور پر انھیں آزادی کا پروانہ نہیں مل جاتا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website

You must be logged in to post a comment Login