اسلام آباد(ایس ایم حسنین) پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام ف کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے حالیہ بیانات اور تضادات سامنے آنے کے بعد متحرک ہوگئے ہیں۔ جمعیت کے ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے آئندہ پی ڈی ایم اجلاس میں متفقہ بیانیہ طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے تمام قائدین ایک بیانیہ پر متفق ہونے چاہیں۔ واضح رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ فوجی قیادت پر الزامات کے بعد انتظار ہے نوازشریف کب ثبوت پیش کریں گے۔ عام طور پر ہم جلسوں میں اس طرح کی بات نہیں کرتے۔ یقین ہے کہ انہوں نے واضح اور ٹھوس ثبوت کے بغیر نام نہیں لیے ہوں گے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ نواز شریف کی اپنی جماعت ہے اور میں یہ کنٹرول نہیں کر سکتا کہ وہ کیسے بات کرتے ہیں۔ہمارا ایجنڈا ہماری آل پارٹیز کانفرنس میں طے پانے والی قرارداد میں واضح ہے۔ انٹرویو میں بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ پی ڈیم ایم کے پاس ابھی استعفوں کا آپشن بھی موجود ہے جبکہ دھرنے بھی دیئے جا سکتے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے کہا کہ بلاول بھٹو کا بیان ان کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے تجربات سے قوم کوآگاہ کرنا ضروری ہے، ہم کہانیوں کی بنیاد پر بات نہیں کر رہے۔ سب سے پہلے سلیکٹڈ بلاول بھٹو نےکہا تھا، ہم نے نہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت میں رہنے کا جواز عوام کا اعتماد ہوتا ہے اور یہ اعتماد موجودہ حکومت کھو چکی ہے۔ انھوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گرتی معیشت کا الزام پی ٹی آئی پر لگاتے ہوئے اسے ایک نااہل حکومت قرار دیا۔
دوسری سابق گورنر سندھ اور ن لیگی رہنما محمد زیبر نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو کی اپنی رائے ہے اور ان کا بیان اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے بلاول بھٹو نے ہی سلیکٹڈ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ اپنےتجربات سے قوم کوآگاہ کرنا ضروری ہے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کا موقف ہے کہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے
خیال رہے کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ گوجرانوالہ جلسے میں فوجی قیادت کا نام لینا نوازشریف کا ذاتی فیصلہ تھا اور تقریر میں براہ راست نام سنے تو دھچکا لگا۔