counter easy hit

کامیاب مرد کے پیچھے عورت نہیں بلکہ کچھ اور۔۔۔۔۔! ایوان صدر میں اپنے والد کی پرانی اور بوسیدہ شیروانی پہن کر شرکت کا انتہائی سبق آموز واقعہ

بیوی بچے سب تیار بیٹھے تھے مگر ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کے اہم ترین دن پر اکیلے ہی چلے گئے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب تمغہ امتیاز یا ہلال امتیاز جیسے اعزازات کیلئے منتخب ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ملک کے صف اول کے دانشور بمشکل اعزاز حاصل کرپاتے۔
مقابلہ انتہائی سخت اور محدود لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تھا۔۔۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا اہم ترین دن تھا اور ان کے بیوی بچے بہترین لباس میں ملبوس ان کے تیار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ آج ایوان صدر میں ڈاکٹر صاحب کو پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا جانا تھا۔
ڈاکٹر صاحب اپنی خوابگاہ سے باہر تشریف لائے تو انھوں نے فوراً اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کے والد کی شیروانی سٹور سے ڈھونڈ کر نکالی جائے اور اسے فوراً پہننے کیلئے تیار کیا جائے۔ جب زیادہ دیر ہوئی تو ڈاکٹر صاحب سٹور کی طرف جانے لگے تو اپنے اہلخانہ کو غیر معمولی تیاری کرتے دیکھ کر اچانک پوچھ لیا۔
آپ لوگ کہاں جارہے ہو!
تو اہلیہ نے جواب دیا۔۔
آپ کے ساتھ ایوان صدر!
آپ بھول گئے آج آپ کو سرکاری اعزاز “ہلال امتیاز” سے نوازا جانا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے معنی خیز نظروں سے اپنی اہلیہ اور بچوں کو دیکھتے ہوئے!
کچھ دیر سوچا اور پھر کہا!
بیگم آپ کو یہ اعزاز آپکے بچے دلوائیں گے۔
میں تو اپنے والد کو ساتھ لے کر جارہا ہوں
ان کی شیروانی پہن کر جائوں گا۔
یہ اعزاز میرے والد کا ہے
آج میں جوکچھ بھی ہوں
اپنے والد کی وجہ سے ہوں
اس لیے آپ لوگ میرے ساتھ نہیں چلیں گے!
یہ سچا واقعہ پاکستان کے ایک صف اول کے استاد، ماہر نفسیات ، پروفیسر اور عالمی سطح پر قابلیت کا لوہا منوانے والے ڈاکٹر حسین مبشر ملک کا ہے۔
پروفیسر حسین مبشر ملک عالمی سطح پر بے شمار اعزازات حاصل کرچکے ہیں اور ماہرین نفسیات کی عالمی رینکنگ میں پہلے پانچ درجات کو پہنچنے والے واحد پاکستانی ہیں۔
انھوں نے اپنے طرز عمل سے اپنے بچوں کو ایک طرف یہ پیغام دیا کہ وہ اتنے قابل ہوں کہ اپنے والدین کیلئے باعث فخر بن جائیں وہیں ان کا طرز عمل دنیا کیلئے بھی پیغام ہے کہ کامیاب مرد کے پیچھے عورت نہیں بلکہ ماں باپ کی قیمتی جوانی کی قربانیاں ہوتی ہیں۔ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی زندگی کے اہم ترین دن جہاں لوگ زرق برق لباس پہن کر جاتے ہیں اور بہترین نئے لباس زیب تن کرتے ہیں۔ وہاں انھوں نے اپنے والد کی پرانی اور بوسیدہ شیروانی پہنی اور اس پر تمغہ امتیاز سجا کر اپنے والد کے لازوال کردار کو خراج تحسین پیش کیا۔
اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے ,وقت پر دیکھ لے ,تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔۔

 

 

Dr. Hussain Mubasshir Malik with Abida Parveen, Famous Singer

جوانی میں انسان باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے , جیسے باپ کو ہمارے مسائل ,تکلیفوں یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں . یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا .
کبھی کبھی ہم اپنے باپ کا موازنہ بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں , ” اتنی محنت ہمارے باپ نے کی ہوتی , بچت کی ہوتی ,کچھ بنایا ہوتا ,تو آج ہم بھی …فلاں کی طرح عالیشان گھر ,گاڑی میں گھوم رہے ہوتے ”

” کہاں ہو ? کب آو گے ? زیادہ دیر نہ کرنا ” جیسے سوالات انتہائی فضول اور فالتو سے لگتے ہیں .
” سویٹر تو پہنا ہے کچھ اور بھی پہن لو سردی بہت ہے ” انسان سوچتا ہے کہ اولڈ فیشن کی وجہ سے والد کو باہر کی دنیا کا اندازہ نہیں۔
اکثر اولادیں اپنے باپ کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہیں ,گھر ,گاڑی ,پلاٹ , بینک بیلنس ,کاروبار اور اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال کر خود سرخرو ہو جاتے ہیں ” ہمارے پاس بھی کچھ ہوتا تو اچھے اسکول میں پڑھتے ,کاروبار کرتے ”

اس میں شک نہیں ,اولاد کے لئے آئیڈیل بھی انکا باپ ہی ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں , جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ,اسلئے کہ ہمارے سامنے , وقت کی ضرورت ہوتی ہے , دنیا سے مقابلے کا بھوت سوار ہوتا ہے , جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں , جسکا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے۔
بہت سی اولادیں , وقتی محرومیوں کا پہلا ذمہ دار اپنے باپ کو قرار دے کر ,ہر چیز سے بری الزمہ ہو جاتی ہیں۔
وقت گزر جاتا ہے ,اچھا بھی برا بھی ,اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک جھپکتے ماضی کی کہانیوں کو اپنے ارد گرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔

جوانی ,پڑھائی ,نوکری ,شادی ,اولاد اور پھر وہی اسٹیج وہی کردار , جو نبھاتے ہوئے ,ہر لمحہ , اپنے باپ کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ آ کر , باپ کی ہر سوچ ,احساس ,فکر ,پریشانی ,شرمندگی اور اذیت کو ہم پر کھول کے رکھ دیتا ہے۔
باپ کی کبھی کبھی بلا وجہ خاموشی , کبھی پرانے دوستوں میں بے وجہ قہقہے , اچھے کپڑوں کو ناپسند کرکے ,پرانوں کو فخر سے پہننا , کھانوں میں اپنی سادگی پر فخر , کبھی کبھی سر جھکائے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مگن ہونے کی وجہ،
کبھی بغیر وجہ تھکاوٹ کے بہانے سر شام بتی بجھا کر لیٹ جانا۔

نظریں جھکائے , انتہائی محویت سے , ڈوب کر قران کی تلاوت کرنا , سمجھ تو آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن بہت دیر بعد،
جب ہم خود راتوں کو جاگ جاگ کر ,دوسرے شہروں میں گئے بچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں۔
جب ہم سردی میں وضو کرتے ہوئے اچانک سوچتے ہیں ,پوچھ ہی لیں “بیٹا آپکے ہاں گرم پانی آتا ہے ”
جب قہر کی گرمی میں روم کولر کی خنک ہوا بدن کو چھو تی ہے تو پہلا احساس جو دل و دماغ میں ہلچل سی مچاتا ہے , وہ ” کہیں اولاد گرمی میں تو نہیں بیٹھی ”

جوان اولاد کے مستقبل , شادیوں کی فکر , ہزار تانے بانے جوڑتا باپ ,تھک ہار کر اللّه اور اسکی پاک کلام میں پناہ ڈھونڈتا ہے , تب یاد آتا ہے , ہمارا باپ بھی ایک ایک حرف ,ایک ایک آیت پر رک رک کر بچوں کی سلامتی ,خوشی ,بہتر مستقبل کی دعائیں ہی کرتا ہوگا .
ہر نماز کے بعد ,اٹھے کپکپاتے ہاتھ ,اپنی دعاؤں کو بھول جاتے ہونگے , ہماری طرح ہمارا باپ بھی ایک ایک بچے کو , نمناک آنکھوں سے اللّه کی پناہ میں دیتا ہوگا۔

سر شام کبھی کبھی , کمرے کی بتی بجھا کر , اس فکر کی آگ میں جلتا ہوگا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے بہت کم کیا ؟
اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے , اتنی دیر سے کہ ہم اسے چھونے ,محسوس کرنے , اسکی ہر تلخی ,اذیت ,فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں . یہ ایک عجیب احساس ہے ,جو وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بےچین ضرور کرتا ہے . لیکن یہ حقیقتیں جن پر وقت پر عیاں ہو جائیں وہی خوش قسمت اولادیں ہیں۔

اولاد ہوتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں
باپ کا چھونا , پیار کرنا ,دل سے لگانا ,یہ تو بچپن کی باتیں ہیں . باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ,پتہ نہیں باپ نے کتنی دفعہ دل ہی دل میں , ہمیں چھاتی سے لگانے کو بازو کھولے ہونگے ? پیار کے لئے اسکے ہونٹ تڑپے ہونگے , اور ہماری بے باک جوانیوں نے اسے یہ موقعہ نہیں دیا ہوگا۔

ہم جیسے درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگوں کی ہر خوائش ,ہر دعا ,ہر تمنا , اولاد سے شروع ہو کر اولاد پر ختم ہو جاتی ہے۔

لیکن کم ہی باپ ہونگے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکے ہوں . یہ ایک چھپا ,میٹھا میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے جاتا ہے ,اولاد کے لئے, بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کرسکنے کی ایک خلش , آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین رکھتی ہے، اور
یہ سب بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے جب ہم باپ بنتے ہیں . بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں . تو باپ کے دل کا حال جیسے قدرت ہمارے دلوں میں منتقل کر دیتی ہے۔

اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے ,وقت پر دیکھ لے ,تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website