آج عام آدمی کس کس مصیبت سے دو چار ہے ۔عام آدمی وہ جو صبح سویرے اٹھتا ہے اور اپنے کاروبار جوبھی اس نے کوئی چھوٹا موٹا کر رکھا ہو چلا جاتا ہے ۔صبح سے شام تک وہ ایسے پیستا ہے جیسے کہ گندم آٹا چکی پر پستی ہے شا م کو وہ جب گھر آتا ہے تو اس غریب کا برا حال ہوتا ہے لیکن اس کے چہرے پر ایک بھی شیکن نہیں ہوتی۔ اس کے بچے اس کے پاس آکر اسے ایسے ملتے ہے ۔جیسے صدیوں کے بچھڑے ہو۔اور بچے اپنے باپ سے کوئی بو ل رہا ہے کہ سکول کی وردی لے دو۔کتاب لے دو۔ سکول وردی کے ساتھ جوتے بھی لینے ہیں ۔لیکن اس کے بچوں کو کیا معلوم کہ اس کی جیب میں بھی کچھ ہے کہ نہیں۔
اس کی بیوی اس کو کہتی ہے کہ آج گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ۔آٹا۔گھی ومصالحہ جات وغیرہ ختم ہو گئے ہے۔اور چینی پتی بھی نہیں جا کر سامان لے آئو۔تو وہ اپنی بیوی کے الفاظ سن کر خاموش ہو جاتا ہے تھوڑی دیر چپ بیٹھ کر وہ گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔تھوڑی دیر بعد وہ خالی ہاتھ گھر میں داخل ہوتا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسوں ہوتے ہے ۔اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ گھر میں جو پرانے برتن وغیرہ ہے ان کو نکالو۔میں ان کو بیچ آتا ہوں ۔ایسے ہی تو گھر میں پڑے ہیں ۔اس کی بیوی بولی تم سامان لینے گئے تھے۔
کیوں نہیں لائے بچوں کا بھوک سے برا حال ہے ۔وہ بولا کہ آج کام نہیں تھا اور ساتھ والی دوکان سے سامان لینے گیا تھا ۔مگر اس نے ادھار دینے سے انکار کر دیا ہے۔اس کی بیوی نے اس کے الفاظ سن کر رونے لگی ۔اور پھر اندر سے برتن وغیرہ اٹھا کر لائی جو سامان لے جا کر فروخت کر کے گھر کا سامان لے آیا لیکن دونوں میاں بیوی کے آنسو تھے جو روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے بچے بے چارے بھوک کے مارے رورو کر سو چکے تھے ۔بیوی نے سامان لے کر کھانا بنایا اور بچوں کو اٹھا کر کھانا دیا۔لیکن میاں بیوی کی تو بھوک مر چکی تھی۔یہ کو ئی ان کے ساتھ پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا۔
پہلے بھی کئی دفعہ کام نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوتا رہتا تھا۔اس کا بھائی جو اسی گھر میں ان کے ساتھ رہتا تھا ۔اس نے کئی دفعہ ان کی یہ حالت دیکھی مگر کسی بھی قسم کی کوئی مدد نہ کی سردیوں میں ان کے بچے بغیر جرسی سویٹراور بوٹ کی جگہ گھر والے جوتے ڈال کر سکول جارہے ہوتے بچوں کو خرچہ دس روپے بھی وہ شخص دینا گوارہ نہ کرتا ۔اس کے بچے بھوک سے مر رہے ہوتے اور وہ ہوٹلوں وغیرہ سے اپنا کھانا لاکر خود کھا رہا ہوتا ۔اس کو ماں باپ نے لاکھوں کا کاروبار کرکے دیا ہوا تھا ۔اس کے بچوں بیوی اور اس کو اس کے بہن بھائی عزیز واقارب بھی اچھا نہیں جانتے تھے ۔کیوں کی وہ مالی طور پر کمزور تھا۔
لیکن وہ جس حال میں بھی ہوتا اللہ سے یہی دعا کرتا کہ اے میر ے رب میرے بہن بھائی ماں باپ کواور عزت دولت دے اور ہر برے شخص کی نظر سے محفظ رکھ۔اور گھر کا یا اس بھائی کا جو بھی جو کام ہوتا وہ اپنا کام چھوڑ کر بھی ان کے کام کر رہا ہوتا ۔چاہے اس کے بچے بھوک سے مر رہے ہوتے ۔ہاں اس کے ماں باپ کا دل کرتا تو بچوں کو کچھ دے دیتے تو ساتھ ہی بولتے کہ اپنا کام کرو اپنے بچوں کا خود پیٹ پالوں ۔تو وہ آسمان کی طرف دیکھا کر اللہ سے یہی دعا مانگتا کہ میرے بچوں کا رزک واصی کر ان کو ہر خوشی ملے اور اس کی آنکھوں سے زارو قاتار آنسوں ہوتے۔
اونام کے مسلمانوں ہم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے ۔آج اپنا بھائی اپنا نہیں بن رہا ۔تو ہاہر والے لوگوں سے کیا شکوہ ۔اللہ رحم کرئے ہم سب پر اور ہم کو نیک اور ایک ہونے کی توفیق دے۔آج ہم مسلمانوں کا کوئی غریب بھائی بیمار ہوجائے تو اس لے کر اس کے گھر والے سرکاری ہسپتال میں جائے گئے۔جہاں پہلے سے غریب مریضوں کی لمبی لائن لگی ہوگئی ۔ڈاکٹرحضرات جن کو کسی سے کوئی غرض نہیں کوئی مر یا زندہ رہے ۔اپنی مرضی سے آنا اور اپنی مرضی سے واپس اٹھ کر اپنے پرائیویٹ کلینک پر چلے جانا ۔کوئی نہیں پوچھنے والا ۔وہ مریض جو اتنی دیر سے اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہے۔
ان کو اس ڈاکٹر کے پاس جانے کا نمبر اس وقت آتا ہے یا تو اس وقت اٹھ کر وہ چلا گیا ہوتا ہے یا پھر ٹی بریک میں ہوتا ہے ۔اور اگر مریض کو چیک بھی کر لے ۔تو اس کو پرائیویٹ لیباٹری کے ٹیسٹ لکھ کر دے دیئے جائے گئے۔اور میڈیسن ایسی لکھے گا جو صرف میڈیکل سٹور سے ملے گئی ۔سرکاری ہسپتال سے اس کو میڈیسن بھی نہیں ملے گئی۔انہی باتوں کو دیکھ کر یہ غریب دوسری دفعہ ہسپتال ان ڈاکٹر وں کے پاس نہیں جاتے ۔اور عطائی ڈاکٹرزولیڈی ڈاکٹرزکے جال میں پھنس جاتے ہیں ان میں کئی عطائی ڈاکٹر زحضرات نے اپنے پرائیویٹ کلینکوں یا ہسپتالوں کے باہر بڑے بڑے بوڑڈ لگا رکھے ہے ۔
ان ڈاکٹرحضرات کا نام لکھ رکھے ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی دیئے رہے ہیں ۔ایک ہی ڈاکٹر کا نام آپ کو نہ جانے کتنے کلینکوں کے باہر بورڈپر نظر آئے گا۔اور اس ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر کے نام کے ساتھ ساتھ ان عطائیوں نے بھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر ولیڈی ڈاکٹر لکھا ہوتا ہے ۔ان کے پاس مریض چلے جاتے ہے ۔جس ڈاکٹر کا وہاں نام لکھا ہوتا ہے ۔وہ تو وہاں ہوتا نہیں یہی عطائی ڈاکٹر ہی ہوتے ہیں ۔جوان مریضوں کا علاج کر رہے ہوتے ہیں ۔اور ایک ہی سرنج سے نہ جانے کتنے مریضوں کو ٹیکے لگا کر ان کو موذی امراض میں مبتلا کرنے میں مصروف عمل ہے۔ایسے کئی کلینکوں پر کئی مریضوں کی اموات ہو چکی ہے۔
عطائی ڈاکٹر و لیڈی ڈاکٹرز کے پاس ۔لیکن آج تک کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ایک عام آدمی کیا کرئے ۔کس سے مدد لے کون کرئے گا اس عام آدمی کی مدد۔کوئی تو ہو گا نیک ایمان دار فرض شناس افیسر ۔جو اس عطائیت کے خلاف جہاد کرئے گا۔اور جو ان عطائی ڈاکٹروں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔محکمہ ہیلتھ کے لوگ ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرتے ہوئے ان کو نوکریوں سے فارغ کرئے گا۔
تحریر۔۔۔ شفقت اللہ خان سیال