تحریر: سید انور محمود
وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ نے 30 نومبر کے لیے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کو 2 واٹر کینن اور 12ہزار سے زائد آنسو گیس شیل فراہم کیے تھے جو کسی کام نہ آئے، نہ تحریک انصاف نے کوئی اودھم بازی کی اور نہ ہی حکومت نے کوئی ڈنڈئے بازی کی۔ گذشتہ سو دن سے زیادہ حکومت کےلیے تحریک انصاف کا دھرنا اور احتجاج دردسر بنا ہوا ہے۔ کافی مرتبہ مذاکرات ہونے کے باوجود معاملہ نہ سلجھ سکا اور ابھی بھی سلجھنے کی کوئی امید نہیں نظر آرہی ہے۔ عمران خان گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ سے تحریک انصاف کے دھرنے کو پکنک پوائنٹ کی طرح چلارہے ہیں۔ اس درمیان عمران خان نے کچھ جلسے کیئے جو کامیاب بھی رہے لیکن ابھی تک عمران خان اپنے دھرنے یا جلسوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہ کرسکے۔ اُنکے ہمراہ آئے ہوئے علامہ طاہر القادری واپس جاچکے ہیں اور 30 نومبر کی دعوت کو اُنہوں نے قبول نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کسی بھی جگہ سوائے صوبائی حکومت کی حصہ داری اُنکے ساتھ نہیں۔ اسلام آباد میں 30 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ کامیاب رہا لیکن عمران خان ایک نابالغ سیاستدان کے طور پرسامنے آئےاورانہوں نے2013کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف دھرنے اور احتجاجی جلسوں کے پلان اے اوربی کے کامیاب نہ ہونے پر اپنے مطالبات منوانے کے لئے پلان “سی” کا اعلان کیا ، جس کے تحت پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کے ذریعے 4 دسمبر کو لاہور، 8 دسمبر کو فیصل آباد، 12دسمبر کو کراچی اور 16 دسمبر کو پورا پاکستان بند کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ عمران خان نے جو پلان “سی” دیا تھا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کرکٹر سے سیاست دان بننے والے عمران خان سیاست کی دنیا میں اٹھارہ سال گذارنے کے بعد بھی نابالغ سیاستدان ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان اپنے پروگراموں کا اعلان کرتے چلے جاتے ہیں لیکن ان پروگراموں کے پیچھے نہ کوئی پلانگ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ہوم ورک۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اگست کے پروگرام کےلیےبھی کوئی ہوم ورک کرنے کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلانا چاہا ، یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کی سول نافرمانی کی کال پر کسی نے کان نہیں دھرا، اُنکی یہ کال بری طرح ناکام ہوئی ، عام لوگوں کو تو چھوڑیں بجلی اور گیس کے بلوں کی عدم ادائیگی کے اعلان پر توخود اُنکی جماعت کی لیڈر شپ نے بھی کان نہیں دھرا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو زر مبادلہ بینکوں کی بجائے ہونڈی کے ذریعے ارسال کرنے کی اُنکی اس کال پر بھی کسی نے توجہ نہیں دی۔عمران خان کی یہ اپیل بھی بری طرح ناکام ہوگئی جس میں انہوں نے عوام سے سرکاری بنکوں سے رقوم نکلوانے کو کہا تھا ۔ عمران خان کی ان اپیلوں پر نہ صرف عام لوگوں نےدھیان نہیں دیا وہیں ملک کی تاجر برادری نے عمران خان کی ان اپیلوں کے خلاف کھل کر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ملک پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے اگر عمران خان کی باتوں پر عمل ہوا تو ملکی معیشت اور زیادہ بدحالی کا شکار ہوجائے گی۔ غرضیکہ عمران خان کے پلان اے اور بی ناکام ہوگے۔ عمران خان کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ حکومت ایک کاروباری شخص کی ہے۔
ایک ماہ کے قریب 30 نومبر کا شور مچتا رہا لیکن شاید عمران خان یا اُنکے ساتھیوں نے اُس دن کے حوالے سے بھی کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ یہ ہی وجہ ہے 24 گھنٹے سے بھی پہلے پلان “سی” تبدیل کردیا گیا اور جو کچھ خان صاحب کنٹینرپر کھڑئے ہوکر فرمارہے تھے اُسکے بلکل برعکس شاہ محمود قریشی نے پلان “سی” دیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ 16 تاریخ کو چہلم بھی ہے اور یوم سقوط ڈھاکہ بھی ہے اس لئے پارٹی نے پروگرام میں رد و بدل کرتے ہوئے 18 دسمبر کو ملک گیر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پارٹی رہنمائوں کی مصروفیات اور دیگر وجوہات کی بناء پر لاہور کو 4 دسمبر کی بجائے 15 دسمبر کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور پارٹی کی دیگر قیادت 8 دسمبر کو فیصل آباد اور 12 دسمبر کو کراچی پہنچے گی اور احتجاجی پروگرام کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج پہلے بھی پرامن رہا اور آئندہ بھی پرامن رہے گا۔ صرف بڑی سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔ دکانیں بند کرنا ہمارے پلان کا حصہ نہیں ہے۔ ہم اپنا احتجاج پرامن طور پر ریکارڈ کرائیں گے۔ بغیر ہوم ورک کے پلان “سی” کے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے ایک دوسرئے سے مختلف پروگرام کے اعلان کا عمران خان اور اُنکی پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ شاید اسکے بعد عمران خاں کو کسی بھی پروگرام کےلیےہوم ورک اہمیت کااحساس ہوگا۔
عمران خان کے کنٹینر سے دیئے گے پلان کے مطابق پلان “سی” میں لاہور کو بند کرنے کے لئے 4دسمبر کی تاریخ طے کی گئی تھی لیکن شاید اُنکے اعلان کے بعد اُنکو پتہ چلا کہ 4 دسمبر کو مینار پاکستان پر حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ کے دو روزہ اجتماع کا پہلا روز ہوگا، لہذا یہ ممکن نہیں کہ 4دسمبر کو لاہور میں تحریک انصاف کوئی احتجاج کرسکے، لہذا اب 4 دسمبر کی بجائے 15 دسمبر کو کو احتجاج کیا جائے گا۔ چلیں اس بات کےلیے تو کہا جاسکتا ہے کہ اُنکو چہلم کی تاریخ یاد نہ رہی ہو یا پارٹی رہنماوں کی مصروفیات کا کسی کو علم نہیں تھا، لیکن کیاشاہ محمود قریشی کو اس بات کا بھی علم نہیں تھا کہ 16 دسمبر ہمارئے ملک میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ابھی پلان “سی” کے شروع ہونے بھی کچھ دن باقی ہیں کہ عمران خان نے اس پلان کی ناکامیابی کو تسلیم کرلیا۔ ایک ٹی وی اینکر نے جب عمران خان سے پوچھا کہ اگر آپکا پلان “سی” فیل ہوگیا تو کیا ہوگا تو خان صاحب نے برجستہ فرمایا کہ پھر میں پلان “ڈی” کا اعلان کرونگا، اینکر نے پوچھا کہ پلان “ڈی” کیا ہے تو عمران خان نے فورا جواب دیا “سول نافرمانی”۔عمران خان کی اینکر سے یہ بات چیت ظاہر کرتی ہے کہ عمران خان میں ابھی تک سیاسی پختگی نہیں آئی ہے۔
پلان سی جو پہلے پہیہ جام اورشٹر ڈاؤن ہڑتالوں کا تھا اب صرف بڑی سڑکوں پر احتجاج تک محدود ہوگیا ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف اور عمران خان دونوں کےلیے پہیہ جام اورشٹر ڈاؤن کی کال نقصان دہ ہوتیں۔ لاہور اور فیصل آباد میں ابھی تک تحریک انصاف کی حمایت عام لوگوں کی جگہ اپرکلاس میں زیادہ ہے، شاید ان علاقوں میں پہیہ جام اورشٹر ڈاؤن کی کال معمولی طور پر کامیاب ہوجاتی لیکن عام عوام یا کاروباری حلقہ میں تو شاید خود تحریک انصاف کے حامی بھی اُنکا ساتھ نہ دیتے۔ جہاں تک کراچی میں پہیہ جام اورشٹرڈاؤن کی کال دینے کی بات ہے وہ صرف ایم کیو ایم ہی کراسکتی ہے، یہ بحث قطعی نہیں کہ کیسے، کراچی میں بھی تحریک انصاف زیادہ تر صرف اپرکلاس میں ہی حمایت حاصل کرپائی ہے، لہذا یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ صرف کچھ بڑی سڑکوں پر احتجاج کے علاوہ تحریک انصاف کو اور کوئی کامیابی مل پائے گی، ایم کیو ایم جس کا دعوی ہے کہ وہ کراچی کی 85 فیصدآبادی کی نمائندہ ہے کیسے تحریک انصاف کو کراچی میں کامیاب ہوتا ہوا دیکھ سکتی ہے، دوسری طرف حکمراں پیپلز پارٹی جو بلا شرکت غیرئے سندھ پر حکمرانی کررہی ہے وہ کیسے تحریک انصاف کو کامیاب ہونے دیگی۔ رہی بات پورئے پاکستان کی تو پہیہ جام اورشٹر ڈاؤن کی کال کو عمران خان شاید صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی کامیاب نہ کرواسکتے۔
پاکستانی سیاست کے گروُ اور وزیر اعظم نواز شریف کے فرینڈلی اپوزیشن لیڈر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ فاسٹ بولر کو وکٹ نہ ملے تو وہ اُکتا جاتا ہے، سیاست ٹی ٹوئنٹی نہیں، ٹیسٹ میچ ہے، اس میں صبر کرنا پڑتا ہے۔آصف زرداری کا کہنا تھا کہ آج کچھ دوستوں کو حکومت کرنے کی جلدی ہے، لیکن سیاست میں صبر بھی چاہیے۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو اپنی کامیابی کی جلدی ہے ، اگر واقعی ایسا ہے تو عمران خان سب سے پہلے خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کریں اور اپنی پارٹی کےقومی اور باقی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو استعفوں کی تصدیق کے لئے ا سپیکرز کے پاس بھجوایں ۔ ایک دن کےلیے اگر پورا پاکستان بند بھی ہوجائے تو نواز شریف کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن خیبرپختونخوا، دوسرئے صوبوں اور قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کے بعد نواز شریف حکومت ہل جائے گی۔
تحریر: سید انور محمود