تحریر : طارق پہاڑ
نعت گو شاعر پیرانِ پیر حضرت شاہ نصیرالدین نصیر کا دو روزہ عرس مبارک مورخہ 10,11 دسمبر بروز بدھ اور جمعرات گولڑہ شریف میں شایانِ شان طریقے سے منایا جا رہا ہے۔ آپ کی خصوصاً نعتیہ شاعری حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور سچائی کا امتزاج ہے۔ نعت اور منقبت کو عشق و مستی کا رنگ دینے والے اردو اور فارسی کے مایہ ناز شاعر اور مخلوق خدا کو خدا شناسی کی منزل کا رستہ دکھانے والے ممتاز عالم دین و مذہبی رہنما پیر سید نصیرالدین نصیر ان گنی چنی ہستیوں میں سے ایک تھے جن کا نام عہد حاضر میں بڑے ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتا اور تمام مسالک کے لوگ آپ کے ساتھ والہانہ محبت رکھتے تھے۔
آپ 1949 ء میں گولڑہ شریف (راولپنڈی) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم حضرت غلام معین الدین گیلانی المعروف بڑے لالہ جی کے نام سے مشہور تھے جبکہ آپ کے دادا محترم حضرت سید غلام محی الدین المعروف بابو جی اور پاک و ہند کے مشہور و معروف پیشواء حضرت سید پیر مہر علی شاہ قدس سرہ العزیز جن کا ڈنکا رہتی دنیا تک بجتا رہے گاآپ کے پر دادا ہیں۔ آپ کو علم و معرفت کے تمام اسلوب حضرت سید پیر مہر علی شاہ کے آستانہ اور گھرانہ سے ملے۔ آپ نے علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی اور آپ نے علمِ تجویدو قرأت استادالقراء قاری محبوب علی لکھنوئی سے حاصل کیا اور سات لہجوں میں قرآن شریف کی تلاوت کرتے تھے۔ خوش اسحانی کی نعمت پانے کے سبب جب محافل میں تلاوت قرآن فرماتے تو ایک سماں بن جاتا تھا۔خود آپ کے بقول
زندہ کر دے جو دلِ مردہ کو اعجاز کے ساتھ
پڑھیئے قرآن کو اس سرمدی آواز کے ساتھ
اور تمام علوم دینیہ حضرت مولنا فتح محمد اور علامہ فیض احمد سے حاصل کیئے۔پیر نصیرالدین نصیر انتہائی ملنسار ، خوش اخلاق اور شفیق ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی فیض سے مالا مال شخصیت تھے ۔ جو کوئی بھی آپ سے ملتا تو آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتا۔ آپ کو آٹھ مختلف زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا اور آپ 28 کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ نے متعدد تقاریر میں فرقہ بندی کے خاتمہ کیلئے تجاویز ہیش کیں اور فرماتے کہ قوم کو سنوارنے اور بگاڑنے میں دو گروہوں کا بڑا کردار ہوتا ہے جن میں علماء اور مشائخ شامل ہیں۔ اگر دونوں کے درمیان بہتری پیدا نہ ہو سکے تو پھر حکومت وقت جو کہ نہ صرف اسلامی ہو بلکہ ملک میں مکمل اسلامی نظام کے قیام اور فرقہ بندی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ ہو کر اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیئے۔ آپ فرماتے کہ علمائے کرام فرقہ بندی میں ملوث ہیں۔ آپ نے فرقہ بندی کے حوالے سے ایک خوبصورت نعت لکھی جس کے دو شعر حسب ذیل ہیں۔
حاضر و ناظر و نور و بشر غیب کو چھوڑ
کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیر
٭
٭
شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں
اب تو سرکار بھی میزان پہ آئے ہوئے ہیں
آپ عاملوں اور جعلی پیروں کے بارے میں بڑا واضع موقف رکھتے اور فرماتے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جادوگر عاملوں کے بارے میں دو ٹوک فرمایا کہ ایسے لوگوں کا کوئی ایمان نہیں ہوتا اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتا ہے۔ آپ سیاستدانوں کے بارے میں فرماتے کہ اسلام کے نام پر سبز باغ دکھا کر حکومتیں کرنے والوں نے نہ تو آج تک اسلام نافذ کیا اور نہ ہی مخلوق خدا کو انصاف اور سستا روزگار فراہم کیا۔ اور سیاستدان الیکشن کے دوران وعدے کر کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ حکمران دوسرے اشاروں پر چلنے والے کٹ پتلی ہوتے ہیں۔ حضرت سید نصیرالدین نصیر نے جامعہ نصیریہ کے نام سے 2004 ء میں ایک اعلیٰ تعلیم کیلئے یونیورسٹی جس میں قرآن و حدیث کی تعلیم اور نوجوان نسل کے عقائد کو درست سمت پر رکھنے کیلئے حضور اکرمۖ کی تعلیمات میں ڈھالنا اولین مقصد ہے۔ تا کہ نوجوان نسل ملک و ملت کے نفرت و تعصب ، فرقہ بندی ، دہشتگردی اور منافرت کے خاتمے کیلئے اہم کردار ادا کر کے یکجہتی ، اخوت ، جذبۂ خدمت خلق اور باہمی ہم آہنگی جیسے نصاب بھی شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے تکمیل کے مراحل سے ہمکنار فرمائے۔ ( آمین )
آپ عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن پاک کی تعلیمات اور ترویج کیلئے ایک ٹی وی چینل قائم کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ حضرت سید نصیرالدین نصیر اپنی نعتیہ شاعری اور تقاریر کے ذریعے مایوس و محکوم قوم کے نوجوانوں میں جذبہ تازہ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ، عشق و مستی کی لو جلائے رکھتے اور تاریک و تنگ راہوں کو روشن و منور کرتے رہے اور اس نفسا نفسی اور کساد بازاری کے دور میں وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ آپ کے کتب خانہ میں نایاب اور چیدہ کتب پر مبنی وسیع لائبریری آپ کے علم و ذوق اور مطالعہ کی نمائندہ ہے۔ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی۔ آپ فرماتے ہیں
مجھ پہ بھی چشم کرم اے میرے آقا کرنا
یہ تیرا کام ہے اے آمنہ کے در یتیم
مجھ پہ بھی محشر میں نصیر ان کی نظر پڑ ہی گئی
٭
٭
٭
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا
ساری امت کی شفاعت تنِ تنہا کرنا
کہنے والے اسے کہتے ہیں خدا کا کرنا
حضرت سید نصیرالدین نصیر دنیا میں اپنا کام مکمل کر کے 13 فروری 2009 ء کو اس جہان فانی سے آناً فاناً کوچ کر کے لاکھوں مریدین اور چاہنے والوں کو رنج و غم میں مبتلا چھوڑ گئے اور علم و عرفاں میں جلتا چراغ بجھ گیا۔ اس طرح سے چلے جانے سے بہت بڑا خلاء پیدا ہو گیا جو کہ پورا ہونا بہت مشکل ہے۔
تیرے بعد کیا بتائوں میرا حال کیا ہوا ہے
نہ کسی کا میں رہا ہوں نہ کوئی میرا رہا ہے
آپ کا دو روزہ عرس مبارک مورخہ 10,11 دسمبر بروز بدھ جمعرات سرزمین گولڑہ میں شایان شان طریقے سے منایا جائے گا۔ جس میں ملک بھر سے ہزاروں عقیدت مند شرکت کریں گے۔علاوہ ازیں جامعہ سعیدیہ کروڑ لعل عیسن میں مورخہ 12 دسمبر بروز جمعة المبارک آپ کا عرس مبارک نہایت عقیدت و احترام سے منایا جائے گا جس سے جماعت اہل سنت کے ڈویژنل کنوینئر علامہ مولٰنا قاری محمد اشفاق سعیدی گولڑوی خصوصی خطاب فرمائیں گے۔
تحریر : طارق پہاڑ
tariq.mehmood.pahar@gmail.com
0301-7850800