تحریر : انجم صحرائی
خدا جھوٹ نہ بلوائے جب سے ہم نے شعور سنبھا لا ہے لیہ کی گلیوں اور سڑ کوں کو زخم خوردہ ہی دیکھا ہے سیوریج کے نام پر ہو نے والی کھدا ئی نے شہر میں ہمیشہ اودھم مچا ئے رکھا ،مٹی ،گڑھے ا ور گندہ پا نی آج سے پچا س بر س پہلے بھی ہم شہر یوں کا مقدر تھا اور آج اکیسویں صدی میں بھی شہر کے معصوم شہری انہی اذ یتوں کا شکا ر ہیں نہ کو ئی ما سٹر پلان، نہ کو ئی ابتدا اور نہ کو ئی انتہا بس ایک ٹھیکیدار ہے اورپو را بے بس شہر، جب چا ہے جہاں چا ہے گلی سڑک کے عین وسط میں کدال والوں کو بھیج کر سیوریج کی دھمال شروع کرا دے، درو غ بر گر دن راوی شہر عزیز میں یہ مو ئی سیوریج کر و ڑوں کا فنڈ ہضم کر گئی مگر گندے پا نی کا جن قا بو میں نہیں آ یا۔
کبھی للی لال روڈ بد نام اور کبھی جلو شیخ ریلوے پھا ٹک کے قریب محلے کی سڑک پہ سیلاب، کبھی عید گاہ کے لو گوں کی آہ و فغان اور کبھی سڑک کنارے ہا ئیڈ پارک کے دا ئیں با ئیں گلیوں میں اوور فلوگٹروں کی معطر فضا ئیں ۔اور تواور اگر آپ نے گٹر اوور فلو گٹر کا لا ئیو نظارہ دیکھنا ہو تو سا بق نا ظم ضلع کے گھر کے سا منے گرلز کالج روڈ کی سڑک کا را ستہ نا پیں الا ئیڈ سکول سے صنعت زار تک پھیلے سیوریج کے گندے پا نی سے اگر آپ دامن بچا کے نکل گئے تو ہما ری طرف سے نو بل ایوارڈ کے حق دار آپ۔ ہمارے ایم پی اے حلقہ بھی شہر کی صفائی اور سیوریج کے ابلتے گٹروں کی نا گفتہ بہہ صورت حال پہ خا صے کبیدہ خا طر ہیں
انہیں اس بات کا خا صا احساس ہے کہ ان کا حلقہ اور ان کے ووٹرز گند گی اور گندے پا نی کی انوائرمنٹ میں زند گی بسر کر رہے ہیں مگر لگتا ہے کہ انہیں یہ ادراک بھی ہے کہ وہ کچھ بھی تو نہیں کر سکتے ۔ بس ایک ہی امید ہے کہ لا ہور تخت آ ئینے میں ا پنا آپ دیکھنے سے فا رغ ہو تو شا ید ہما ری بھی عید ہو جا ئے ۔مگر خاک ہو جا ئیں گے تمہیں خبر ہو نے تک کے مصداق ہنوز دلی دور است ۔
سا بق پی پی پی کے سا بق جیالے ، دیرینہ مسلم لیگی اور حال میں تحریک انصاف کے جنو نی جو کسی زما نے میں ممبر صو با ئی اسمبلی ہوا کرتے تھے کہتے ہیں کہ لا ہور تخت ہمیں بھیک میں کچھ نہ دے بس بجٹ میں ہمارا جو حصہ بنتا ہے وہ دے دے تو ہمارے ہاں بھی میٹرو ما حول بن سکتا ہے۔ بات تو خا صی حد تک سمجھ میں آ تی ہے کہ 2013-14 کے SPDP پرو گرام کے تحت سدرن پنجاب کو 72 ارب ملنا تھے ۔مالی سال ختم ہو نے کو ہے ابھی تک 22 کروڑ 20لا کھ ملے ہیں ۔PFC ایوارڈ کے تحت ضلع کا حصہ 2ارب66
کروڑ بنتاہے ملے دو سا لوں میں صرف لگ بھگ12کروڑ ۔نہ کو ئی ما نگنے والا ہے نہ کو ئی دینے والا نہ کو ئی آواز بلند کر نے والا اور نہ کو ئی سننے والا۔ اب کو ئی ناراض ہو یا راضی بات تو سچ ہے کہ لیہ کی تعمیرو تر قی کے حوالہ سے آمر پر ویز مشرف کا دور مثا لی تھا ۔ پر ویز الہی دور میں شروع ہو نے والے اربوں کے میگا پرا جیکٹ کا زکر کیا جا ئے تو ایک لمبی فہر ست بنتی ہے 30 کروڑ کی ڈسٹرکٹ جیل ، 60 کروڑ کا ملک پرا سیسنگ پلانٹ اور 13 کروڑ سے تعمیر کیا جا نے والا پو لی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ برا ئے خواتین ابھی تک ادھورے پڑے
ہیں اگرSPDP اورPFC ایوارڈ کے تحت ملنے والا حصہ ہی لیہ کو مل جا ئے تو یہ کھنڈر بنتے پرا جیکٹ مکمل کئے جا سکتے ہیں نصف صدی قبل جب ضیا دور میں لیہ ضلع بنا تب یہ اپنی نو عیت کا واحد ضلع تھا جس کے THQ ہسپتال کو ہی DHQ نام دے کر اپ گریڈ کر دیا گیا تھا اس زما نے میں بننے والے اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال کی نئی خو بصورت عما رتیں تعمیر ہو ئیں مگر ضلع لیہ کے ما سٹر پلان میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال کے لئے مختص 50 ایکڑ سے زیا دہ اراضی کو نہ جا نے کو نسی فا ئل نگل گئی اور کو نسا کھو ہ کھا تہ کھا گیا کہ ہم اسی THO بلڈنگ میں ہی خو بصورت مکمل اور جدید سہو لتوں سے مزین DHO ہسپتال بنا نے میںبر سر پیکار ہیں۔
سا بق نا ظم ضلع نے تو مادر علمی سے صحت کا واسطہ دے کر کچھ زمین حا صل کر کے اپنا یہ شو ق پورا کیا تھا مگر آج کے عوا می نما ئند گان انہی را ہدا ر یوں میں ایک بڑی آپریشن تھیٹر بنا نے کا عزم لئے تعمیرو تر قی کا ایک نیا باب رقم کر نے کے خواہشمند ہیں۔ اب انہیں کون کہے کہ جناب DHO کے لئے مختص زرعی قطعہ ارا ضی کو تلا ش کیجئے تا کہ ایک نئے اور مکمل ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر کا گم شدہ حق لیہ کے عوام کو مل سکے لیکن
ہمیں پتہ ہے کہ یہ نہیں ہو نے والا کہ
گلیاں ہوں جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے
کے مصداق لا ہور سے کچھ بچے گا تو ہمیں کچھ ملے گا ۔ ہما رے لئے تو آج خادم پنجاب کے دور میں بھی وزیر اعلی میاں نواز شریف کی طرف سے اعلان کئے گئے تو نسہ پل لا لی پا پ اور نواز شریف ہسپتال سے ہی بہلا یا جا رہا ہے
تحریر : انجم صحرائی