تحریر: محمد عبداللہ بھٹی
روزِ اول سے خالقِ کائنات کی ایک خاص ادا رہی ہے کہ جب بھی کسی بستی، شہر یا ملک کے باشندوں کی حالت ِ زار آخری حدوں کو عبور کر جاتی ہے ۔ تو دکھی اور لاچار انسانوں کی ہدایت اور فلاح کے لیے کسی مردِ کامل کو بھر پور صلاحیتوں سے لِیس کر کے اُس جگہ پر بھیج دیتا ہے ۔431ہجری میں اہلِ لاہور کی حالت بہت خراب اور تکلیف دہ ہو چکی تھی ۔ لاہور اِس وقت اسلامی سلطنت کے زیرِ نگین تھا ‘بت شکن سلطان محمود غزنوی دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ اُس کے بیٹوں میں تخت حاصل کرنے کی جنگ چھڑی ہوئی تھی ۔ مسعود غزنوی نے اپنے حقیقی بھائی امیر محمد کو اندھا کر کے زنداں کے حوالے کر دیاتھا قسمت نے پلٹا کھا یا نابینا امیر محمد کے وفادار سپاہیوں نے سلطان مسعود کر گرفتار کر کے قلعے میں بند کر دیا اور بعد میں سلطان مسعود کو قتل کرا دیا گیا۔
عجیب زمانہ تھا ایک بھائی قاتل اور دوسرا مقتول اسلامی تاریخ کے عظیم فاتح کی اولا دایک دوسرے کی شہ رگ پر خنجر کھینچ رہی تھی۔ غزنی کے انتشار اور مسلمانوں کی باہمی رنجشوں نے اہل ہنود کے حوصلے بڑھا دئیے تھے ۔ دہلی اور دوسرے علاقوں کے ہندو راجہ متحد ہو گئے ۔ سیاسی حکمتِ عملی کے طور پر ہانسی اور تھیسر پر قبضہ کرنے کے بعد دس ہزار کا لشکر لے کر آگے بڑھے اور لاہور کا محاصرہ کر لیا اہلِ لاہور پر بڑا نازک وقت تھا ۔ نہ دن میں کاروبار کر سکتے تھے اور نہ رات کو چین کی نیند سو سکتے تھے ۔آخر اہلِ لاہور پر قدرت کو رحم آیا ہندو سرداروں میں پھوٹ پڑ گئی اور وہ اپنی اپنی فوج لے کر واپس چلے گئے اِس طرح لاہور اغیار کی یورشوں سے محفوظ رہا۔اِن حالات میں اشارہ غیبی کے تحت غزنی کے بہت بڑے مشہور بزرگ حضرت خواجہ ابوالفضل نے اپنے لاڈلے مرید خاص سے کہا۔
سید زادے اب تمھاری ضرورت یہاں نہیں بلکہ اہلِ لاہور پنجاب کے مکین زیادہ ضرورت مند ہیں لہٰذا تم غزنی چھوڑ کر وہاں چلے جائو۔ نوجوان سید زادے کے لیے ایک لمحے کی بھی مرشد سے جدائی گوارا نہیں تھی ۔ نوجوان مرید نے مرشد پاک سے التجا کی کہ مجھے اپنے قدموں سے جدا نہ کریں کیونکہ لاہور میں تو پہلے سے ہی آپ کا مرید حضرت شیخ حسین زنجانی موجود ہے اُس مردِ کامل کی موجودگی میں اہل لاہور کو میری ضرورت کہاں ہے لہذا میں آپ کی خدمت کے لیے آپ کے قدموں میں باقی زندگی گزارنا چاہتا ہوں ۔ اب میری خدمت یہی ہے کہ تم لاہور جائو حضرت شیخ ابوالفضل نے فرمایا ۔ آخر یہ نوجوان سید زادہ اپنے مرشد کی دعائوں کے سائے میں لاہور کی طرف روانہ ہوا۔تاریخ اور جغرافیہ شناس اچھی طرح جانتے ہیں کہ غزنی سے لاہور کا سفر کتنا مشکل اور طویل ہے۔
زبان، تہذیب، معاشرت ملک الگ لیکن سید زادہ منزل عشق کا مسافر تھا کسی زادِ راہ کے بغیر ہی پیدل روانہ ہو گیا ۔ تقریباً دو ماہ کے طویل سفر کے بعد جب نوجوان لاہور پہنچا تو شام ہو چکی تھی کسی سے جان پہچان نہیں تھی اِس لیے لاہور کے باہر ہی قیام کیا صبح ہونے پر جب شہر میں داخل ہواتو سامنے سے ایک جنازہ آرہا تھا تو پوچھا یہ کس کی میت ہے تو لوگوں نے بتا یا حضرت حسین زنجانی رات کو انتقال فرماگئے خبر سن کر چند لمحوں کے لیے سید زادہ دم بخود رہ گیا پھر آپ کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا۔ اشک ریزی کے دو اسباب تھے ایک یہ کہ پیر و مرشد کے حکم کی مصلحت کو نہ سمجھا دوسرا یہ دکھ کہ حسین زنجانی کا دیدار آپ کی قسمت میں نہ تھا روایات سے پتہ چلتا ہے
نوجوان سید زادہ حسین زنجانی کی تدفین میں شریک ہوا مقامی باشندے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ ایک اجنبی شخص دفن کے بعد بھی بہت دیر تک قبر کے قریب اُداس بیٹھا رہا بعد میں بھی یہ سید زادہ اکثر حسین زنجانی کے مزار پر حاضر ہو تا اور رقتِ قلب سے دعا مانگتا یہ راز بہت بعد میں جاکر کھلا کہ جوروشنی زیرِ خاک روپوش ہو گئی ہے اور جو روشنی مزار کے باہر نظر آرہی ہے دونوں ایک ہی چشمہ معرفت سے فیض یاب ہیں ۔ حسین زنجانی نے چوالیس سال اپنے لہو سے پتھریلی زمین کی آبیاری کی جب پتھریلی زمین نم ہو گئی تو دنیا سے رخصت ہو گئے اور نوجوان درویش توحید کی نئی فصل بونے آگیا یہ قدرت کا انوکھا راز اور فیصلہ تھا کہ جس رات ایک ولی دنیا سے رخصت ہوا اُسی رات دوسرا ولی لاہور میں داخل ہوا اِسی طرح جس رات امام ابو حنیفہ دنیا سے رخصت ہوئے اُسی رات کے آخری حصے میں حضرت امام شافعی پیدا ہوئے۔
یہاں سے فارغ ہو کر نوجوا ن سید زادے نے لاہور کی معاشرت کا جائزہ لیا ہر شخص اپنی ذات میں گم تھا تبلیغ اِسلام سے کسی کو کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ رشد و ہدایت کے کام پر جمود طاری تھا ۔لہذا نو جوان نے ایک نئی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا ۔ مقا می باشندے ایک دن آکر کہنے لگے یہاں پہلے ہی کئی مسجدیں موجود ہیں تو پھر نئی مسجد کی تعمیر کیوں تو سید زادہ بولا وہ امراء کی مسجدیں ہیں اور اِس مسجد کو اللہ کا مزدور تعمیر کر رہا ہے ۔ مقامی باشندے حیرت زدہ تھے کہ پر دیسی نوجوان کسی سے مدد یا مالی تعاون کے بغیر خود ہی زور و شور سے مسجد بنا رہا تھا یہ اخراجات وہ کیسے پورے کر رہا ہے لاہور کے با شندے نئی مسجد اور نووارد درویش کے بارے میں سوچ رہے تھے
یہ کون ہے کدھر سے آیا ہے ۔ لیکن نوجوان درویش اپنے کاموں میں اِس قدر منہمک تھاکہ اسے گرد وپیش کی خبر تک نہیں تھی ۔ جب مسجد تکمیل کے آخری مراحل میں پہنچ گئی تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔مغل شہزادہ دار اشکوہ اپنی کتاب سفینتہ الاولیا میں تحریر کرتا ہے۔
ایک دن لاہور کے کچھ علما سید زادے کے پاس آئے اور کہنے لگے تمھاری ساری محنت اکارت گئی ۔یہ تمھاری لاعلمی کی وجہ سے ہوا ہے اگر تم مسجد کی تعمیر سے پہلے کسی ہوش مند انسان سے مشورہ لے لیتے تو خانہ خدا میں نقص نہ ہوتا ۔ مسجد کے قبلے کا رخ ٹھیک نہیں ہے اِس کا جھکائو کسی قدر جنوبی سمت میں ہے ۔ غزنی کے نوجوان نے ایک نظر مسجد کی طرف دیکھا اور پھر انتہائی پر یقین لہجے میں کہا ۔ میری آنکھیں جو دیکھ رہی ہیں وہ آپ نہیں دیکھ رہے اِس مسجد کا قبلہ بھی درست ہے اور میرے دل کا بھی ۔ علمائے لاہور کو نوجوان کی یہ بے نیازی پسند نہ آئی دلوں میں نفرت اور حسد کا غبار لیے چلے گئے جب مسجد تعمیر ہو گئی
تو نوجوان درویش نے تمام علمائے لاہور کو مسجد میں آنے کی دعوت دی علمائے لاہور اِس خیال سے تشریف لائے کہ پردیسی نوجوان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے لہذا اب اپنی غلطی کے ازالے کی کوئی تدبیر دریافت کرنے کے لیے بلایا ہے وہ دلوں میں حسد کا غبار لیے ہوئے آئے تھے کہ آج اِس نوجوان کی بھر پور گرفت کریں گے ۔ نوجوان نے سب کا بھر پور استقبال کیا موذن نے اذان کہی تو نوجوان امامت کے لیے کھڑا ہوا اور کہا آیئے حضرات نماز ادا کریں۔ پھر نماز ادا کی گئی عام لوگوں کو نوجوان کی امامت میں ایک خاص کیف حاصل ہوا۔
نماز ختم ہونے کے بعد نوجوان علمائے لاہور سے مخاطب ہوا آپ کو مسجد کے قبلے پر اعتراض تھا ۔ آپ حضرات کو آج اِس لیے زحمت دی کہ اپنی آنکھوں سے قدرت ِ خداوندی کا مظاہرہ دیکھ لیں ۔ یہ کہ کر نوجوان درویش نے مسجد کے میناروں کی طرف اشارہ کیا کہ آپ خود ملاحظہ کریں قبلہ کس طرف ہے پھر چشم ِ حیرت پر عجیب منظر ابھرا ۔آئے ہوئے لوگوں نے درویش کے اشارے کی طرف دیکھا لوگوں نے کھلی آنکھوں سے قبلے کا مشاہدہ کیا۔ اب بتائیے مسجد کی تعمیر میں کوئی نقص ہے تو حیرت میں ڈوبے ہوئے علماء بولے جب حقیقی قبلہ ہمارے سامنے روشن ہے تو شک کی گنجائش کہاں وہ با ربار نوجوان درویش سے معذرت کر رہے تھے کہ آپ کے فیض ِ روحانی سے ہم لوگوں نے قبلہ مکرم کا دیدار کیا۔
اہلِ لاہورحیران تھے کہ اللہ نے اپنے پسندیدہ بندے کہاں کہاں چھپا کر رکھے ہوئے ہیں اور اُن کو کیسی کیسی روحانی قوتیں دے رکھی ہیں۔ نوجوان درویش عاجزی سے بولا یہ تو اللہ تعالی کا کرم خاص ہے جو وہ اپنے نام لیوائوں کی شرم رکھ لیتاہے ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔ جو نوجوان سید زادہ حسین زنجانی کے جنازے میں شریک ہوا اور پھر اُس سے کرامت ظاہر ہوئی وہ سیدعلی ہجویری تھے جنہیں داتا گنج بخش کے لقب سے پوری دنیا جانتی ہے ۔ جن کے روشن کارناموں کو صدیوں کا غبار دھند لا نہ کر سکا اور آج لاہور شہر داتا کی نگری کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔
تحریر: محمد عبداللہ بھٹی