تحریر : ایم سرور صدیقی
سوچتا ہوں دسمبر کا مہینہ ہرسال کیوں آجاتا ہے؟۔۔ ہرسال دل کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں اور اداسی رگ و پے میں گویا پھیل سی ہو جاتی ہے دسمبر کا مہینہ کیلنڈر سے نکال بھی دیا جائے تو حقائق تو نہیں بدل سکتے۔۔ تلخ یادوں سے جان تو نہیں چھڑائی جا سکتی وقت پلٹ نہیں سکتا حالات کا سامنا کرنے میں ہی عافیت ہے۔۔حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہی حالات کا تقاضا ہوتا ہے اور حالات سے سبق سیکھنا ہی دانائی ہے لیکن ہم پاکستانیوں نے یہ تینوں کام ہی کرنا چھوڑ دئیے ہیں ہمیشہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرنے پرہی اکتفا کرنا مناسب خیال کیا ہے۔
ایسی اذیت۔۔۔ایسی بے بسی ۔۔۔ ایسی ذلت شاید عالم ِ اسلام کی تاریخ میں شاذ شاذ ہی مثال ہو۔۔دنیا کی مانی جنگجو فوج کا اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنا اور 90000 فوجیوں کا جنگی قید ی بننا ایسا داغ ہے جو شاید کبھی نہ دھویا جا سکے۔۔ 16 دسمبر سقوط ِ ڈھاکہ ہماری موجودہ اسلامی تاریخ سب سے سیاہ دن کہا جا سکتاہے یہ ایک سانحہ۔۔۔ یہ المیہ بھلائے نہیں بھولتا لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہم نے اس سانحہ سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔۔قوم کے وہی لچھن ہیں۔۔ وہی لاپرواہی۔۔۔پاکستان سے وہی بے نیازی۔۔وہی مال ِ مفت دل ِ بے رحم جیسا سلوک۔ سقوط ِ ڈھاکہ والے دن ہم نے گلی گلی لوگوںکو دھاڑیں مارمارکر روتے دیکھا ہے کیا جوان۔۔ کیا بوڑھے ۔۔کیا عورتیں ۔۔کیا لڑکیاں سب کے سب ۔۔۔گھر گھر ہچکیوں اور سسکیوں کی آوازیں سن کر مزید اداسی چھا جاتی تھی۔۔
اس صدی کا سب سے بڑا سانحہ رونما ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے لیکن ہماری آنکھیں اب بھی نہیں کھلیں حالانکہ سقوط ِ ڈھاکہ کے بعدہمارے سینے صندل کی طرح سلگتے رہنے چاہییں تھے باقی مانندہ پاکستان کو دنیا کا سب سے عظیم خطہ بنانے کیلئے دن رات ایک کردینا چاہیے تھا تاکہ شکست کا داغ دھویا جا سکتا سانحات۔۔۔ المیے۔۔۔ اور شکست کرب ِ مسلسل ہے جو خوابیدہ قوموں کو جگا دیتی ہے لیکن اس معاملہ میں ہم خاصے بے حس واقع ہوئے ہیں۔۔۔۔کاش ہمارے 90000 فوجی دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہو جاتے ہتھیار ڈالنے کی شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔۔۔کہتے ہیں مشرقی پاکستان میں شکست فوجی نہیں سیاسی تھی۔۔۔عوامل جو بھی ہوں۔۔حالات جیسے بھی شکست شکست ہوتی ہے یاد کرو! سقوط ِ ڈھاکہ والے دن اندرا گاندھی نے کہا تھا میں نے دو قومی نظریہ بحیرہ ہند میں ڈبو دیا ہے۔۔۔
اتنی ہزیمت بھی ہم نے برداشت کرلی ایک ملک میں رہنے کے باوجودمگر آج بھی سندھی ،بلوچی،پٹھان اور پنجابی کی تفریق سے باہر نہیں نکلے۔۔۔دنیا میں دو ملک مذہب کی بنیاد پر معرض ِ وجود میں آئے پاکستان اور اسرائیل۔۔۔ لیکن دنیا بھرکی اسلام دشمن طاقتوں نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیایہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔پاکستان کے قیام کے وقت دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی لاکھوں افراد گاجر مولی کی طرح کاٹ دئیے گئے۔۔
ہزاروں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی پاکستان کے قیام کیلئے دی جانے والی قربانیاں کوئی معمولی نہیں ہیں تاریخ میں یہ قربانیاں یقینا ناقابل ِفراموش ہیں مسلمانوں نے تو قدم قدم پر قربانیاں دی ہیں آج کی نسلوںکو اس کا قطعی ادراک نہیں ۔۔ ارض ِ پاک کوگلہ تو اپنی ہرنسل سے ہے ایک بات طے ہے پاکستان کو جتنا نقصان یہاں بسنے والی اشرافیہ نے پہنچایاہے کسی دشمن نے نہیں پہنچایا ہوگا پاکستان کے تمام مسائل اور عوام کی محرومیوںکے یہی ذمہ دارہیں یہ ان لوگوںنے اس ملک کو کبھی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سے زیادہ اہمیت نہیں دی اس لئے سوچتا رہتا ہوں دسمبرکا مہینہ ہرسال کیوں آجاتا ہے؟۔۔
ہرسال دل کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں اور اداسی رگ و پے میں گویاپھیل سی ہو جاتی ہے دسمبر کا مہینہ کیلنڈرسے نکال بھی دیا جائے تو حقائق تو نہیں بدل سکتے۔۔کاش قیام ِپاکستان کے اگلے روز ہجرت کے وقت لاہور آنے والے مہاجرین کی لہومیں ڈوبی ٹرین عجائب گھرمیں رکھ دی جاتی تولوگوںکو احساس ہوتا کہ اس ملک کیلئے کتنی قربانیاں دی گئی تھیں پاکستان کے ساتھ یہ سلوک روا نہ ہوتا والد ِ محترم محمد حسین صاحب مرحوم و مغفور اکثر کہا کرتے تھے” مجھے ایمان کی حد تک یقین ہے کہ پاکستان قیامت تک قائم رہے گا کوئی جو بھی کرلے اس ملک کی اللہ حفاظت کرنے والا ہے۔
ایک اور بات قرآن حکیم میں اللہ تبارک تعالیٰ نے جنت کی جتنی نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ پاکستان میں افراط سے پائی جاتی ہیں اور ماہ ِ رمضان میں 27 ویں شب لیلة القدرکو پاکستان کا لاالہ الا اللہ کی بنیادپروجودمیں آنا منشاء ایزدی ہے اس ملک کی قدر نہ کرنا اللہ کی نعمتوں کو ٹھکرانے کے مترادف ہے عام لوگوں کو اپنے وطن سے بہت محبت ہے لیکن کم و بیش 1000 خاندانوں نے اس ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے بدقسمتی سے یہ لوگ ملک کے وسائل پرقابض ہیں ۔۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ جو لوگ قیام ِ پاکستان کے شدید مخالف تھے پاکستان بنا تو وہی ایک منصوبے کے تحت ریاست، سیاست اور جمہوریت کے چمپئن بن کر اقتدارپر قابض ہوگئے اور ہر حکومت کا کسی نہ کسی انداز میں حصہ بن کر مزے لوٹ رہے ہیں
ان کا اقتدار میں براجمان ہونا سدا بہارہے یہی لوگ اداروںکا استحکام نہیں چاہتے ۔ معذرت کے ساتھ ۔۔۔کسی کی دل آزاری مقصودنہیں یہ کسی پر نکتہ چینی یا تنقید بھی نہیں ایک عجیب بات ہے سوچ کا زاویہ ہے ایک نقطہ نظر جان کر گواراکرلیں کہ کسی نہ کسی اندازمیں سقوط ِ ڈھاکہ کے ذمہ دار جتنے بھی کردار(شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقارعلی بھٹو ،اندرا گاندھی) ہیں سب کے سب غیر فطری موت کا شکار ہوئے۔۔ واللہ عالم بالصواب اللہ دلوں اورنیتوںکا حال بہتر جانتاہے۔اس لئے سوچتا رہتا ہوں دسمبرکا مہینہ ہرسال کیوں آجاتاہے؟۔۔ہرسال دل کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں اور اداسی رگ و پے میں گویا تحلیل سی ہو جاتی ہے دسمبر کا مہینہ کیلنڈر سے نکال بھی دیا جائے تو حقائق تو نہیں بدل سکتے اور یہ سوچ سوچ کرنہ جانے کتنے محب ِ وطن سکتے میں ہیں
نہ حقائق بدل سکتے ہیں اور نہ پاکستانی۔۔۔دنیا میں پاکستان شاید واحدملک ہے جس میں رہنے والوںکی اکثریت کو اپنے ہی دیس سے پیار نہیں اور جو اس پاک وطن کی محبت کے گن گاتے ہیں ان کیلئے زندگی بوجھ سی بن گئی ہے حیات کے دن رات عذاب۔۔۔ہماری اشرافیہ نے ان کے مقدرمیں محرومیاں اور مایوسیاں لکھ دی ہیں اور جب مایوسیاں حدسے زیادہ بڑھ جائیں انسان کو اپنی ذات سے بھی محبت ختم ہو جاتی ہے غورکریں۔۔ دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ باقی مانندہ پاکستان میں بھی 16دسمبر والے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس ملک میں امیر امیر تر ۔۔غریب غریب ترین ہوتا جارہا ہے آج پھر ملک خطرے میں ہے مشرقی پاکستان بھی مایوسی اور محرومیوں کے باعث ٹوٹا تھا آج بھی محرومیوں اور مایوسیوں کا دور دورہ ہے سیاستدانوں نے مک مکا کانام جمہوریت رکھ دیا ہے ان کے اپنے اربوں کھربوں بیرون ِ ممالک میں ہیں لیکن ان کا دل بھرتاہے نہ جیب نہ نیت۔۔۔کروڑوں ہم وطن خط ِ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیںکبھی یہی حال مشرقی پاکستان کے باسیوںکا تھا جب ملک میں سماجی انصاف ملے۔۔
نہ۔پیٹ بھرکر روٹی ۔۔۔غریبوںکے پڑھے لکھے بچوںکو روزگار نہ ملے اشرافیہ کی نااہل اولاد کلیدی عہدوںپر فائز ہو جائے عام آدمی کو کیا فرق پڑتاہے 16دسمبر آئے نہ آئے۔۔۔ہم جیسے لوگ اس روزکبھی دل میں۔۔کبھی پلکیں اشکبارکرکے رولیتے ہیں یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے ہمارے حکمرانوں کو مطلق احساس نہیں عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ سقوط ِ ڈھاکہ ہماری موجودہ اسلامی تاریخ سب سے سیاہ دن کہا جا سکتا ہے اس صدی کا سب سے بڑا سانحہ۔۔۔ یہ المیہ بھلائے نہیں بھولتا لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہم نے اس سانحہ سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔۔ قوم کے وہی لچھن ہیں۔۔ وہی لاپرواہی۔۔۔پاکستان سے وہی بے نیازی۔۔وہی مال مفت دل بے رحم جیسا سلوک۔۔۔ خدا خیرکرے ہم مزید کسی ازمائش کے قابل نہیں ہیں۔
تحریر : ایم سرور صدیقی