تحریر: اختر سردارچودھری، کسووال
پاکستان کی تاریخ کے سفاک ترین دہشت گردی پشاور میں واقع ایک سکول میں بچوں کو خون سے نہلا دیا گیا اس پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا۔ ساڑھے دس بجے سکول پر حملہ کیا گیا دہشت گرد سکول کے پیچھے سے واقعہ قبرستان کے راستے سے دیواریں پھیلانگ کر یا چھت کے ذریعے سے سکول میں داخل ہوئے دہشت گردوں نے سیکورٹی فورسزز کی وردیاں پہن رکھی تھیں ان کی تعداد پولیس ذرائع نے 6 یا 7 بتائی جبکہ بعض ذرائع اسے 8 سے 10 تعداد بتائی ہے ایک دہشت گرد نے ایک کلاس میں گھس کر خود کو دھماکہ سے اڑا لیا جس سے بہت سے بچے ایک ساتھ شہید ہو گئے۔سب نے خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور ان کے پاس AK47 جیسے اسلحہ سے بھی لیس تھے۔ یہ سب خود کش حملہ آور تھے یہ دہشت گرد عربی زبان بول رہے تھے ۔آج کے واقع نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے ایک قیامت ٹوٹ پڑی پاکستان پر دنیا کی تاریخ میں اس سے بڑا حادثہ بچوں کے سکول میں نہیں ہوا۔
سکول کانام آرمی پبلک سکول ہے جو کہ ورسک روڈ پر واقع ہے یہ کوئی عام جگہ نہیں ہے بلکہ اس کے اردگرد گورنر ہاوس ،وزیراعلی ہاوس،سیکرٹریٹ ،وغیرہ واقع ہے ۔دہشت گرد جس گاڑی پر آئے اس گاڑی کو آگ لگا دی۔ سکول میں سینکڑوں بچے زیر تعلیم تھے جن کی فائینل تعداد کا علم نہ ہو سکا ۔6 سے 8 سو سے زائد طلبا بتائے جاتے ہیں ۔ آپریشن بھی لیٹ شروع ہوا کیونکہ ایسے حادثات سے نپٹنے کے لیے ہمارے ملک۔۔ پہلے سے کوئی پلاننگ نہیں ہوتی بلکہ جب حادثہ ہو جاتا ہے تو بھی اس کی صرف مذمت کی جاتی ہے حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہایسے حادثات کی روک تھام کے لیے کوئی مستقل لائحہ عمل طے کیا جائے ۔ایک طرف آپریشن جاری ہوا دوسری طرف دہشت گرد بچوں کو ایک ایک کر کے گولیاں ماری جاتی رہیں اس واقع کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔۔ ۔متعدد طلبا کو سکول سے نکال لیا گیا لیکن پھر بھی سینکڑوں والدین کی گود اجڑ گئی آخری اطلاعات جب یہ کالم سینڈ کیا جا رہا ہے شام ساڑھے پانچ بجے اس قومی سانحہ میں 126 بچے اور اساتذہ شہید ہوئے اور سینکڑوں کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا گیاجن کی تعداد 122 بتائی جاتی ہے جن کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
اور کل تقریبا 10 دہشت گردوں میں سے ایک نے خود کو بم سے اڑالیا اور باقی5کو فوج نے آپریشن کر تے ہوئے ہلاک کر ڈالا 27 دھماکے ہوئے اس وقت تک آپریشن جاری ہے اور صرف ایک بلاک میں ابھی تک دہشت گرد موجود ہیں وہاں انہوں نے طلبا اور اساتذہ کو یرغمال بنایاہوا ہے جن کی تعداد کا علم نہیں ہے ۔اس سانحہ سے سانحہ سقوط ڈھاکہ جو آج سے 43 برس قبل ہوا اسی تاریخ کو ہوا اس کی یا د تازہ ہو گیا دل تب بھی خون کے آنسو رویا اور اس سانحہ پر بھی ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو رویا ہے ۔ان بچوں کا قصور کیا تھا دہشت گرد اس سے کیا پیغام دینا چاہتے تھے اگر ان کا یہ پیغام ہے کہ وہ بہت بہادر ہیں تو نہتے بچوں کو مارنا کون سی بہادری ہے۔ اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کافروں کے بچوں کو بھی نہ مارا جائے ۔اس لیے دہشت گردوں کے عربی بولنے سے ان کو مسلمان خیال کرنا درست عمل نہیں ہے۔ایسا ملک دشمن عناصر بھی کر سکتے ہیں عربی تو ایک زبان ہے جو کوئی بھی بول سکتا ہے اسے مسلمان خیال کرنا درست عمل نہیں ہے ۔اس طرح تحقیقات کا رخ بدل جاتا ہے ۔ہم یہ بھی نہیں کہنا چاہتے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں ۔کہنا یہ ہے کہ اس سانحہ کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔
وزیر اعظم نواز شریف ،جنرل راحیل شریف ،عمران خان اور دیگر سبھی قابل ذکر وزرا تمام اختلافات بھلا کر اس سانحہ میں یک آواز نظر آئے کہ اس پر وہی پرانی باتیں کی جاتی رہیں کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے ۔جب تک اس ملک سے آخری دہشت گرد کو ختم نہیں کر دیا جاتا چین سے نہیں بیٹھے گے ۔یہ ضرب عضب کا رد عمل ہے۔
سانحہ کاسن کر والدین وہاں پہنچ گے سارا دن سکول سے دھماکوں اورگولیاں چلنے کی آوازیں آتی رہیں ۔جس سے باہر کھڑے والدین لرزتے رہے اللہ سے دعائیں کرتے رہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زخمی بچوں کو لایا جاتا رہا والدین اپنے بچوں کی تلاش میں روتے پھر رہے تھے ان کو علم نہیں ہو رہا تھا ان کے بچے کہاں ہیں سکول میں ہیں یا ہسپتال ہیں زندہ ہیں یا شہید ہو گے ہیں ہسپتال میں کوئی ایسا معلوماتی سپاٹ نہ بنایا گیا گی جہاں سے معلومات مل سکتی ہوں اس لیے والدین انتہائی پریشانی سے سکول سے ہسپتال اور ہسپتال سے سکول کے چکر لگاتے رہے ۔ہر سانحہ کی کمیٹی بنتی ہے مگر اس کا کوئی رزلٹ نکلا ہو اس کا علم نہیں باتیں سب کرتے ہیں مذمت کرتے ہیں ہمدردی جتاتے ہیں اور وقت گزر جاتا ہے ۔ حکومت نے اعلان کیا کہ ہر مرنے والے بچے کے والدین کو پانچ پانچ لاکھ امداد دی جائے گی اور جن کے بچے زخمی ہوئے ہیں ان کی دو دو لاکھ مدد کی جائے گی۔
کل تک سیاسی گیم شروع ہو جائے گئی ایک سیاسی لیڈر اس کی ذمہ داری بھی آج بھی عمران پر ڈال رہے تھے کہ وہ وزیراعظم بننے کے چکر میں ہیں اور ان کے صوبے میں یہ ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ تحریک انصاف نے 18 دسمبر کی ملک کو بند کرنے کی کال موخر کر دی ہے اور مذکرات بھی ملتوی کر دیئے نئی احتجاج کی کال کا بعد میں اعلان کیا جائے گا ۔اسی طرح عوامی تحریک نے بھی 17 دسمبر کا ا ملک گیر احتجاج بھی موخر کر دیا اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ۔ملک کی تمام قابل ذکر سیاسی و مذہبی پارٹیوں نے اس سانحہ کی شدید مذمت کی اور تین روز سوگ کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نے تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس طلب کر لیا۔
تحریر: اختر سردارچودھری، کسووال